irafidhi

معاویہ کا بغض علی کی وجہ سے سنت کو ترک کرنا

اصحاب کا بغض علی علیہ السلام کی وجہ س سنت محمدی کو ترک کرنا

حضرت سعید ابن جبیر بیان کرتے ھیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ عرفات میں تھا ‘ وہ فرمانے لگے : کیا وجہ ھیں کہ لوگوں کو لبیک پکارتے نہیں سنتا ؟ میں نے کہا : وہ معاویہ سے ڈرتے ھیں ‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے خیمے سے نکلے اور بلند آواز سے پکارا لبيك اللهم لبيك’ لبيك . بے شک ان لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کے بغض میں سنت ( تلبیہ) ترک کیا ھیں

صحیح ابن خزیمہ / جلد 3 / کتاب مناسك / صفحہ : 568 / حدیث : 2830 / طبع : دارالعلم ممبئ

کتاب کے محقق ” ڈاکٹر محمد مصطفے اعظمی ” اس حدیث کے زیل میں لکھتے ھیں : صحیح سند

– یہ حدیث سنن نسائی میں بھی نقل ھوئی ھیں

سنن نسائی / جلد 4 / کتاب مناسک الحج / باب التلبیہ بعرفہ / صفحہ : 628 / حدیث : 3009 / طبع دارالعلم ممبئ

کتاب کے محقق شیخ زبیر علی ذائی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا : حسن

اس حدیث کو علامہ البانی نے بھی صحیح کہا ھیں اپنی کتاب صحیح سنن نسائی

حافظ زبیر علی زائی کے ایک شاگرد نے غلام مصطفی ظہیر امن ہوری نے ایک ویڈیو میں ایک اعتراض کیا تھا کہ اس روایت میں خالد بن مخلد ایک کوفی روای سے روایت کرتا ہے اور جب وہ کوفیوں سے روایت کرتا ہے تو اسکی روایت ضعیف ہوتی ہے

تو عرض ہے کہ خالد بن مخلد کی کوفیوں سے روایت آپکی صحیح بخاری میں موجود ہے ، امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک حدیث ” فضائل زبیر ” کے زیل میں کی ہے جو اس طرح ہے :

حدثنا خالد بن مخلد حدثنا علي بن مسهر عن هشام بن عروة عن ابية قال …..

حوالہ : صحیح بخاری – امام محمد بن اسماعیل بخاری // کتاب فضائل // فضائل زبیر بن العوام // رقم ۲۷۱۷ // طبع بیت الافکاریہ اردن

اس حدیث میں جو روای ” علی بن مسھر ” اسکے بارے میں ابن حجر اپنی کتاب تقریب میں یوں لکھتا ہے :

۴۸۰۰- علی بن مسھر ۔۔۔۔۔۔۔ الکوفی القرشی ۔۔۔۔

حوالہ : تقریب التہذیب – ابن حجر العسقلانی // صفحہ ۴۳۶ // رقم ۴۸۰۰ // طبع دار المنہج

تو جناب سے گزارش ہے کہ صحیح بخاری کی اس حدیث کے بارے میں کیا خیال ہے !

اس آرٹکل کا پہلا حصہ ۲۰۱۶ء اور دوسرا ۲۰۱۸ء میں لکھا گیا ہے

تحریر : ڈاکٹر آصف

امام حسن علیہ السلام کی فضیلت 

اھل بیت علیھم السلام کے فضائل کتب احادیث میں کثرت سے ورد ہوئی ہیں۔ آج ۲۸ صفر بمناسبت شھادت امام حسن بن علی علیہ السلام ھم اس مظلوم امام کے بارے میں ایک بہترین فضیلت یہاں بیان کرتے ہیں : 

ابوجحيفة : 

حدثنا أحمد بن يونس حدثنا زهير حدثنا إسماعيل عن أبي جحيفة رضي الله عنه قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وكان الحسن يشبهه

ابو جحیفہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تھا اور امام حسن بن علی ان سے مشابہت رکھتا ہے 

حوالہ : صحیح بخاری // کتاب المناقب // باب صفۃ النبی // رقم ۳۵۴۳ // طبو بیت الافکاریہ  



یہ حدیث اسی صحابی سے سنن ترمذی میں موجود ہے : 

حوالہ : سنن ترمذی // صفحہ ۶۳۳ // رقم ۲۸۲۷ // طبع مکتبہ المعارف ریاض 


اس کتاب کے محقق شیخ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے 





یہ حدیث مسند احمد بن حنبل میں بھی اسی صحابی سے مروی ہے : 

حوالہ : المسند احمد بن حنبل // جلد ۲ // صفحہ ۳۵۴ // رقم ۱۸۹۵۲ح // طبع بیت الافکاریہ 


کتاب کے محقق شیخ شعیب الارنؤط نے اس کو صحیح قرار دیا ہے 




اسی صحابی سے یہ حدیث فضائل صحابہ لاحمد بن حنبل میں موجود ہے : 

 

حوالہ : فضائل  الصحابہ لاحمد // جلد ۲ // باب فضائل الحسن و الحسین // رقم ۱۳۱۸ // طبع دار ابن الجوزی ریاض 

کتاب کے محقق شیخ وصی اللہ عباس نے اس کو صحیح قرار دیا ہے 





تحریر : ڈاکٹر آصف حسین 

※ولایت فقیہ اور کشمیر میں اسکے بارے میں شدت پسندی※

                 الرسالة عن الولاية الفقية لشباب كشمير                         
                                    ﷽      
 

کچھ مہینے قبل نجف کے ایک طالب علم کا مسیج آیا جو غیر کشمیری ہے انہوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کیا وجہ ہے کہ کشمیری عوام خصوصاً نوجوان ولایت فقیہ کے مسلے میں افراط کے شکار ہے ؟

 

تو میں نے اس دن انکو یہ کہہ کر انکی بات کی نفی کی کہ کشمیر میں سید علی خامنه اي حفظہ اللہ کے مقلدین کثیر تعداد میں موجود ہے اسلے آپکو ایسا لگ رہا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر جب میں نے کشمیر میں شیعہ نوجوانوں کے حالات پر نظر ڈالی تو میں نے یہی پایا کہ واقعی کشمیر میں یہ مسئلہ اب شدت پکڑ رہا ہے۔ اب کل کچھ حضرات نے فیسبک پر کچھ پوسٹز لگائی تھی جنکا متن کچھ یوں تھا ” مرگ بر ضد ولایت فقیہ [جسکا مطلب ہے ولایت فقیہ کے مخالف کی موت ہو] ” ،” مرگ بر MI6 ایجنٹز ” وغیرھم تو میں نے ارادہ کیا کہ اللہ کے فضل سے ولایت فقیہ کے علاقائی حدود کے بارے میں پر اپنا نظریہ پیش کروں تاکہ اس مسلے میں ہر کسی کے لے حق واضح ہو کیونکہ کشمیر میں بہت سارے نوجوان آج بھی یہی مانتے ہے کہ رھبر پوری دنیا کے ولی فقیہ ہیں جبکہ اکثریت کو علم بھی نہیں ہے کہ اس سے کیا مراد ہے !

 

ولایت فقیہ دو الفاظ ” ولایت ” اور ” فقیہ ” کا مرکب ہے

 

ولایت لفظ عربی میں ” الوِلاَيَةُ ” ہے جسکے بہت معنی ہے : •رشتہ ، قربت ،•زیر اقتدار علاقہ ، حکومت و فرماں روائی بالادستی ، اقتدار و ملکی انتظام ، وہ ملک جس پر کسی حاکم کا اقتداء کو [ القاموس الوحید – مولانا وحید الزمان قاسمی // جلد ۲ // صفحہ ۱۹۰۰// طبع الھند ]

 

اور لفظ فقیہ عربی میں ” الفَقِيْهُ ” ہے جسکا معنی صاحب فہم عالم ، اصول شریعت اور احکام شریعت کا عالم یا ماہر ، قرآن پاک پڑھے اور پڑھانے سکھانے والا قانون دان [ القاموس الوحید – مولانا وحید الزمان قاسمی // جلد ۲ // صفحہ ۱۲۴۸ // طبع الھند ]

 

لہذا یہاں ولایت فقیہ سے مراد “احکام شریعہ کے عالم کی حکومت ” یا سادہ الفاظ میں “ایک فقیہ کی حکومت” اور یہی اس کے اصطلاحی معنی بھی ہے !

 

ولایت فقیہ میں فقیہ کے لے اولین شرط یہ ہے کہ اسکے پاس حکومت ہو اور آپ سیاسی علوم کے بارے میں کوئی بھی بنیادی کتاب اٹھا لیں وہاں یہی بات لکھی ہوگی کہ حکومت کے اصولاً دو کام ہوتے ہیں :

 

+قانون سازی [Legislative ] – اس سے مراد قانون و ملکی احکامات بنانا ہے [ یہ عمل ہر فقیہ کرتا ہے کیونکہ وہ مختلف مسائل کے لے قرآن و سنت سے استنباط کرکے کوئی رائے قائم کرتا ہے مثلاً ہر کوئی مرجع اس بات کو اپنی کتب میں لکھتا ہے کہ ایک چور کے لے فلان سزاء ہے وغیرھم ]

 

+قانون نافذی [ Executive ] – اس سے مراد اوپر والے احکامات کو نافذ کرنا۔ دراصل یہی وہ واحد وجہ ہے جسکے ذریعے سے ایک ولی فقیہ ایک عام فقیہ سے الگ ہوتا ہے کیونکہ اب حکومت آنے کی وجہ سے وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے دیئے گئے احکامات کو نافذ کر سکھے مثلاً سید سیستانی حفظہ اللہ بھی چور کے لے فلان سزاء لکھتا ہے لیکن اسکو عمل میں لانے کی قدرت نہیں رکھتا جبکہ سید علی خامنه اي حفظہ اللہ اس پر قادر ہے کیونکہ انکے پاس حکومتی نظام ہے۔

 

لہذا جو بات یہاں صاف ہے وہ یہی ہے کہ ایک ولی فقیہ ایک عام فقیہ سے صرف اس مسلے پر فوقیت رکھتا ہے کہ وہ احکام شریعہ کو نافذ کرنے کی صلاحیت/قدرت رکھتا ہے۔

 

 

تو کشمیر کے ان باشعور جوانوں سے کچھ سوالات ہے جو ولایت فقیہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہے کہ رھبر کی ولایت پوری دنیا میں ہے :

 

– اگر آپکے مطابق رھبر کی ولایت کشمیر میں بھی ہے تو جس وجہ سے ایک فقیہ ولی فقیہ کہلاتا ہے وہ اسکا احکامات نافذ کرنے کی طاقت ہوتا ہے تو ھمیں بتا دیں کہ رھبر نے کتنے چوروں کو یہاں سزاء دی ہے اور کتنے اسلامی احکامات یہاں نافذ گئے ہے ؟ یا اگر آپ خود کو رھبر کے سپائی کہلاتے ہو تو کتنے چوروں کو آج تک آپکے ذریعے سے یہاں اسلامی قوانین کے مطابق سزاء ملی ہے یا آپ کے پاس بھی یہ طاقت نہیں ؟

 

– کشمیر میں ولایت فقیہ کے غلو پسند حامی خود کہتے ہے کہ ولی فقیہ دراصل امام زمانہ عج کا نائب/ نمائندہ ہوتا ہے مثال یہ دیتے ہے کہ جس طرح امام علی علیہ السلام کے زمانے میں امام علی علیہ السلام نے مختلف علاقوں کے لے مختلف نمائندے مقرر کئے تھے مثلاً مصر کے لے مالک الاشتر تو سوال ہے کہ کیا جناب مالک الاشتر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے علاقے سے باہر سرزمین یمن میں اپنی حکومت کا اعلان کرتا یا اس زمانے میں چین [ جہاں مسلمان نہیں تھے ] وہاں اپنی ولایت کا اعلان کرتا !

 

– مراجع کے درمیان اختلاف اس مسلہ پر تھا کہ ولی فقیہ کے authoritive power کی حد کیا ہے ۔۔۔ علاقائی حدود کے بارے میں میری نظر میں کسی نے ایسا کوئی دعوہ نہیں کیا ہے [الا ماشاء اللہ] کہ ولی فقیہ کی ولایت پوری دنیا میں ہوتی ہے بلکہ اسکے برعکس آیت اللہ ناصر مکارم شیرازي حفظہ اللہ نے صریح طور پر کہا ہے کہ رھبر ولی فقیہ صرف ایرانی عوام کے لے ہیں اور عرآق کے ایک جید عالم دین آیت اللہ شیخ کاظم حائری کا فتواہ بھی ملتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جب سید علی خامنائ حفظہ اللہ ایران کے ولی فقیہ مقرر کیے کئے تو میں نے انکو خط کے ذریعے پوچھا کہ آیا آپ عرآق کے بھی ولی فقیہ ہو تو انہوں نے ” نا ” میں جواب دیا !

 

– یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ولی فقیہ کا انتخاب ایران میں مجلس خبرگان کرتی ہے جنکو عوام ایک الیکشن کے ذریعے چنتی ہے لہذا عام لفظوں میں ولی فقیہ کو ایرانی عوام indirectly منتخب کرتی ہے تو کیا یہ عقلی طور پر صحیح ہے کہ ایک حاکم (ولی) کو ایک ملک یا علاقے کی عوام منتخب کرے اور باقی تمام دنیا میں انکی حکومت فرض ہوجائے !

 

 

نوٹ : جہاں بھی میں نے اوپر ولایت کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے مراد سیاسی ولایت ہے ورنا دینی امور میں کچھ حد تک ولایت اصولین کے یہاں مسلم ہے

 

اس بات ہر علماء اصولین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ ایک فقیہ کے پاس مختلف دینی امور میں ولایت ہوتی ہے کیونکہ خود امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک لمبی حدیث میں ہے : ” وآن العلماء وراثة الانبياء – علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہے [ اصول الکافی لکلینی ۱/۳۴ ، امالی للصدوق ۱۱۶/ رقم ۹ و صححة شيخ آصف محسني في المعجم الاحاديث المعتبرة // رقم ۱:۱۸ ] مثلاً خمس میں امام زمانہ عج کا حق کہاں خرچ ہوگا اس مسلے میں موجودہ فقہاء کا غالباً اجماع ہے کہ ایک فقیہ کو ولایت حاصل ہےوغیرھم ۔ اور اتفاق کی بات ہے کہ یہ ولایت بھی کسی ایک خاص فرد کے لے نہیں ہے بلکہ تمام مراجع کرام کو یہ ولایت حاصل ہے۔

 

لیکن کیا ایک فقیہ کو امام کی جگہ حکومت کرنے کا حق ہے اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے سید روح اللہ خمینی (علیہ الرحمہ ) کے بقول ایک فقیہ کے لے ولایت کا یہ جزء بھی ثابت ہے جبکہ سید ابوالقاسم الخوئی ( علیہ الرحمہ ) کا موقف اسکے خلاف تھا۔ [ یہ ایک الگ بحث ہے جس پر طوالت کے سبب ابھی کچھ لکھنا ممکن نہیں اور اسکا اس موضوع کے ساتھ تعلق بھی نہیں جبکہ اس مسلے میں بھی یہاں کشمیر میں کافی غلو ہو رہا ہے مثال کے طور پر ھمارے ایک قریبی ثقہ و معتبر دوست نے ھمیں خبر دی کہ انکے امام جمعہ نے ایک بار خطبہ میں یہ تک کہا ہے ” ولی فقیہ کو ھم پر اسی طرح نظر رہتی ہے جس طرح ایک CCTV کیمرے کے ذریعے انسانوں پر چوپیس گھنٹے نظر رکھی جاتی ہے ”

 

 

عرض ہے کہ یہ امور ولایت تکوینی میں آتے ہیں جس کا دعوی انکے لے آج تک کسی نے بھی نہیں کیا ہے یہاں تک کہ خود امام خمینی علیہ الرحمہ و امام خامنه اي حفظہ اللہ نے اسکا دعوہ نہیں کیا بلکہ ھمارے کچھ شیعہ امامی محققین نے ائمہ علیھم السلام کے لے اس قسم کی ولایت تکوینی تک کا انکار کیا ہے مثلاً سید محمد حسین فضل اللہ وغیرھم ، ایک غیر معصوم کی بات ہی نہیں ہے۔ معلوم نہیں یہاں کے خطیب کہاں سے ایسی عجیب و غریب باتیں لے آتے ہیں ]

 

نوٹ : اکثر ولایت فقیہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ نظریہ امام خمینی نے سب سے پہلے دیا اور ان سے پہلے کسی بھی شیعہ مرجع یا عالم نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ ان لوگوں کی بات بھی صحیح نہیں بلکہ مسئلہ ولایت فقیہ غیبت کبری کے بعد فقہائے شیعہ کے درمیان ایک اہم موضوع رہا ہے۔

 

شیخ مفید اپنی مشہور کتاب المقنعہ میں لکھتے ہیں؛

 

فأما إقامة الحدود فهو إلى سلطان الإسلام المنصوب من قبل الله تعالى و هم أئمة الهدى من آل محمد ع و من نصبوه لذلك من الأمراء و الحكام و قد فوضوا النظر فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الإمكان

 

“حدود کو قائم کرنا اسلامی حاکم سے مربوط ہے جو اللہ کی طرف سے منصوب و منصوص ہو، اور یہ آل محمد میں سے ہمارے آئمہ ھدی (علیھم السلام) ہیں، یا وہ ہیں جن کو (ہمارے آئمہ) بطور امیر و حاکم نصب کریں۔ یہ اختیار (غیبت کبری میں) شیعہ فقہاء کو تفویض کیا جا چکا ہے بشرطیکہ یہ ذمّہ داری پوری کرنا فقہاء کے لئے ممکن ہو۔[المقنعہ: صفحہ ۸۱۰]

 

شیخ مفید ایک اور جگہ وصیّت کے باب میں فرماتے ہیں؛

 

و إذا عدم السلطان العادل فيما ذكرناه من هذه الأبواب كان لفقهاء أهل الحق العدول من ذوي الرأي و العقل و الفضل أن يتولوا ما تولاه السلطان فإن لم يتمكنوا من ذلك فلا تبعة عليهم فيه و بالله التوفيق

 

“جب سلطان عادل (امام معصوم) موجود نہ ہو تو جیسا کہ ہم نے ان ابواب میں ذکر کیا، سلطان عادل (امام معصوم) کے امور اور ان کی ذمّہ داریاں وہ اہل حق اور عادل فقہاء اٹھائیں گے جو عاقل و فاضل ہوں۔ اور جب ان (فقہاء) کے لئے یہ مناصب اٹھانا ممکن نہ ہو تو ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔” [المقنعہ: صفحہ ۶۷۶]

 

 

آج تک جن افراد سے بھی جو ولایت فقیہ میں علاقائی وسعت میں غلو کا حامی ہے اس مسلے کے بارے میں سوال کیا ہے وہ اس میں کنفوژن [ confusion ] کے شکار ہے کیونکہ ایک محترم بھائی سے کچھ دن پہلے بات ہوئی تو انہوں نے کہا رھبر کی ولایت [سیاسی] امور میں ایران تک محدود ہے اور شریعی ولایت دنیا کے تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔

 

تو عرض ہے اس بات سے تو رھبر کے علاوہ تمام مراجع کرام کی مرجعیت ہی ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ آپ کہ رہے ہو دینی امور میں دنیا کے تمام لوگوں پر فرض ہے کہ رھبر کی دینی امور میں اطاعت کریں تو باقی مرجع کا کیا کام رہے گا جب ایک واحد شخصیت دینی امور میں واجب اطاعت ہوگی ؟؟؟

 

دراصل ایک فقیہ کے حاکم ہونے کے بعد تین احتمالات پیدا ہوتے ہیں :

 

* فقیہ مذھبی و سیاسی امور میں دنیا میں صرف اپنے مقلدین پر ولایت کا حق رکھتا ہے

* فقیہ مذھبی امور میں اپنے مقلدین اور سیاسی امور میں پورے دنیا میں ولایت کا حق رکھتا ہے

* فقیہ مذھبی امور میں اپنے مقلدین اور سیاسی امور میں اس خطے تک ولایت رکھتا ہے جن لوگوں نے انکو چنا ہوگا

 

 

پہلا احتمال محال ہے کیونکہ فقیہ دینی امور میں اپنے مقلدین پر حجت ہے اس میں اختلاف نہیں لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک فقیہ اپنے فتاوی و احکام کو دنیا میں اپنے تمام مقلدین پر نافذ کر سکھے کیونکہ اسکے لے اسکے پاس پوری دنیا کی حکومت ہونی چاھے یا اسکے مقلد صرف اس جگہ ہو جہاں اسکی حکومت ہو ، یہ دونوں ناممکن ہی ہے۔

 

دوسرا احتمال بھی ایسا ہی ہے اسکے لے بھی ولی فقیہ کو پوری دنیا کی حکومت ہونا لازم ہے تب ہی وہ احکامات کو نافذ کر سکھتا ہے جو ممکن نہیں کیونکہ امریکہ میں رہنے والا ایک عام انسان جو چوری کرتا ہے اسکو سزا دینے کی طاقت ایران میں مقیم ولی فقیہ کو نہیں بلکہ امریکی حکومت اسکو اپنے قوانین کے تحت سزاء دے سکھتی ہے۔

 

تیسرا احتمال ممکن ہے اور عقل کے موافق ہے کیونکہ ایک فقیہ دینی امور میں دنیا کے تمام اپنے مقلدین پر حجت ہے لیکن اسلامی احکام وہ صرف وہاں نافذ کر سکھتا ہے جہاں اسکی حکومت [ ولایت سیاسی ] قائم ہے ، یہ حقیقت کے قریب ہے اور ایسا ہی ہے جب ایران میں کوئی جرم کرتا ہے تو وہاں ولی فقیہ کو حق ہے کہ اسکو سزاء دے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے ۔

 

لہذا یہ گمان کہ ولی فقیہ کی ولایت پوری دنیا تک ہوتی ہے ایک عبث خیال ہے جو حقیقت سے بعید ہے ، میں خود مانتا ہوں کہ یہ ایک اچھا خیال ہے لیکن ایک فقیہ کی حکومت پوری دنیا میں ہو اسکے لوازمات پورے نہیں ہو رہے ہے بلکہ یہ ایک خواب کے مانند ہے جو تب ہی پورا ہوسکھتا ہے جب دنیا میں شیعہ اثناعشریوں کی آبادی اکثریت میں آجائے گی ، یہ ایسا ہی کہ کوئی گمان کرے کہ دنیا کی ساری دولت اسکے پاس ہو ۔۔۔ خیال اچھا ہے لیکن محال ہے۔شیخ ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ کا اس مسلے پر سب سے بہترین موقف ہے جس میں نہ غلو ہے اور نہ تقصیر بلکہ حق مبنی ہے وہ کہتے ہیں :

 

” ولی فقیہ کی حد اس علاقے تک ہوتا ہے جہاں کی عوام نے انکو منتخب کیا ہوتا ہے اور وہاں کے لوگوں اور مراجع کا اسکی مخالفت کرنا صحیح نہیں لیکن اگر باقی دنیا کے لوگ چاھے تو بحثیت ایک سربراہ انکی پیروی کر سکھتے ہے تاکہ وہ منعظم ہوجائیں [ اور اس سے فائدہ مند ہو ] لیکن انکو ایسا کرنا ضروری بھی نہیں ” اوکما قال [ انکی اپنی سائٹ پر ایک سال قبل ایک استفتاء میں انہوں نے ایسا لکھا تھا ]

لیکن انکی فارسی ویب سائٹ پر ابھی ایک سوال کا جواب بھی اسی طرح ہے :

 

 

پرسش : ولایت فقیه تحقیقی است یا تقلیدی؟

پاسخ : برای کسانی که مجتهد باشند تحقیقی است و برای کسانی که مجتهد نیستند تقلیدی است.

 

پرسش : آیا شخصی در کشور دیگر که در آن کشور قوانین اسلامی رعایت نمی شود مثلا ترکیه زندگی میکند و به ولایت مطلقه فقیه اعتقاد دارد 1-آیا از قوانین کشور ترکیه باید تبعیت بکند یا ولایت فقیه؟ 2- آیا دایره ولایت فقیه مختص به کشور ایران است؟

پاسخ : با توجه به اینکه شخص ولی فقیه به وسیله ی خبرگان انتخاب شده و خبرگان به وسیله ی مردم ایران تعیین شده اند، بنابراین ولایت فقیه مربوط به کشور ایران می شود ولی فتوای مرجع تقلید برای همه در هر جا معتبر است.

 

 

ترجمہ:

سوال:کیا ولایت فقیہ تحقیقی مسئلہ ہے یا تقلیدی؟

جواب:جو مجتھد ہے اس کےلئے یہ تحقیقی ہے اور جو مجتھد نہیں ہے اس کےلئے یہ تقلیدی مسئلہ ہے۔

 

 

 

سوال : کیا ایک ایسا شخص کہ جو کسی ایسے ملک میں زندگی بسر کرتا ہو کہ جس میں اسلامی قوانین کی رعایت نہیں کی جاتی مثلا ترکی میں زندگی بسر کرتا ہو اور ولایت فقیہ مطلقہ پر ایمان بھی رکھتا ہو تو کیا وہ ترکی کے قوانین کی اتباع کرے یا ولایت فقیہ کی ؟ اور کیا ولایت فقیہ کا دائرہ مملکت ایران کیساتھ خاص ہے ؟

جواب : اس طرف متوجہ رہتے ہوئے کہ جو شخص ولی فقیہ ہو وہ مجلس خبرگان کے توسط سے منتخب کیا جاتا ہے اور مجلس خبرگان کا انتخاب ایرانی عوام کے توسط سے ہوتا ہے اس بنا پر ولایت فقیہ ایران کے ساتھ مربوط ہے لیکن اپنے اپنے مرجع تقلید کا فتوی سب کیلئے ہر جگہ معتبر ھے۔

 

 

‏http://makarem.ir/main.aspx?typeinfo=21&lid=0&mid=14920

 لبنان میں بھی حزب اللہ بظاھر اسی پر عمل کرتے ہوئے منعظم ہوگئی اور انکی تحریک کے ثمرات ھمارے سامنے ہے لیکن انہوں نے بھی کبھی اس مسلے میں اتنی شدت پسندی نہیں کی جس طرح کشمیری حلقے میں پائی جاتی ہے جہاں پر اس نظریہ کے ساتھ اختلاف کرنے والے کو ” مرگ بر ضد ولایت فقیہ ، مرگ بر ۔۔۔۔ ” کہا جاتا ہے۔ پھر خوارج اور آپ میں کیا فرق ہے جو محض چھوٹے چھوٹے مسائل پر عام مسلمانوں کی تکفیر کرتے تھے جبکہ یہ اجتہادی دور ہے لہذا ہر کوئی اپنے اجتہاد یا اپنے مرجع کی تحقیق کے مطابق عمل یا کوئی رائے رکھتا ہے لہذا محض اجتہادی اختلاف کی وجہ سے بھی کسی کو کافر یا دائرہ اسلام سے خارج کرنا بہت بڑی غلطی ہے جسکو خود سید علی خامنه اي حفظہ اللہ مسترد کرتے ہیں ، چناچہ وہ اپنی کتاب “استفتات کے جوابات” میں یوں لکھتے ہے :

 

سوال (۶۲) : کیا اس شخص کو حقیقی مسلمان سمجھا جائے گا جو ولایت فقیہ کا معتقد نہ ہو ؟

 

جواب : غیبت امام زمانہ عج کے عہد میں اجتہاد یا تقلید کے بنا پر ولایت فقیہ کا اعتقاد نہ رکھنا ارتد یا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا باعث نہیں ہے۔

 

حوالہ : توضیع المسائل ( المعروف استفتاء اور انکے جوابات – سید علی خامنه اي ) – اردو // جلد ۱ // باب ولایت فقیہ اور حکم حاکم // صفحہ ۳۰ // طبع سرینگر

 

 

لہذا یہ کیسا انصاف ہے کہ جو ولایت فقیہ کے بارے میں ھماری فکر سے اختلاف رکھتا ہے اسکے لے “مرگ بر – مرگ بر ” کا نعرہ لگایا جائے جبکہ ولایت فقیہ اجتہاد کے بنا پر ایک نظریہ ہے اس سے بہت سارے جید علماء نے اختلاف بھی کیا ہے مثلاً لبنان کے سید محمد فضل اللہ ولایت شوریٰ نظریہ کے حامی تھے [ دیکھے انکی کتاب فقہ زندگی ] ، سید محمد حسین شیرازی بھی اسی بات کے حامل تھے [ دیکھے انکی کتاب The Islamic Government ] ، شھید باقر الصدر خلافت انسانی کا نظریہ رکھتے تھے ، کچھ محققین ولایت صالحین کے قائل ہے جن میں ھمارے ایک پاکستانی استاد بھی ہے بلکہ کچھ مراجع کے نظریہ کے مطابق ایک فقیہ کے لے حکومت میں حصہ لینا جائز ہی نہیں [ یہ رائے آیت اللہ شیخ اسحاق فیاض اور انکے استاد کی ہے ]

 

اس بات سے قطعی نظر کہ ان تمام نظریات میں سے بہترین کونسا نظریہ ہے ،کیا یہ درست ہے کہ ھم مخذ کسی کے لے اسلے ” مرگ بر۔۔۔۔ ” کا نعرہ دیں جبکہ حقیقت میں وہ اپنے اجتہاد یا اسکا مرجع تقلید اس بات کا قائل ہے جو ھماری نظریہ کے خلاف ہو ۔۔۔ ذرا عقل سے کام لیں [ اپنے آپ کو انکی جگہ رکھیں پھر بات سمجھنے میں آسانی ہوگی ]

 

 

ایک اور بات جو اس حوالے سے ضروری ہے کہ جب ھم ان احباب سے اس مسلے پر بحث کرتے ہے جو اس بات کے قائل ہوتے ہے کہ رھبر کی ولایت پوری دنیا میں ہے تو وہ یہ اعتراض کرتے ہے کہ ” جس طرح معصومین علیھم السلام کی سیاسی ولایت صرف ایک خاص حصے تک محدود ہونے کے باوجود بھی وہ پوری کائنات کے ولی تھے تو کیا ولی فقیہ کے لے ممکن نہیں ”

 

اسکا جواب ہے کہ یہ سوال ہی غلط بلکہ قیاس آرائی پر مبنی ہے جسکو معصومین علیھم السلام نے حرام قرار دیا ہے بلکہ یہ گمراہی کا سبب ہے [الکافی لکلینی ۱/۵۷ و صحيحة شيخ آصف المحسني في المعجم الاحاديث المعتبرة رقم ۲/۵۵ ] اسکی وجہ یوں ہے :

 

~ معصومین کی ولایت اور ولایت فقیہ کا مبنا [ Source ] الگ الگ ہے کیونکہ پہلا منصوص من اللہ ہوتا ہے اور دوسرا منصوص من الناس ہوتا ہے لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسرے کو پہلے پر قیاس کیا جائے۔

 

~ معصومین کی ولایت ایسی ہے کہ اگر انکو حکومت نہ بھی ملے جیسا کہ اکثر معصومین علیھم السلام کے ساتھ ہوا سوائے امام علی و امام حسن علیھما السلام کے تب بھی انکی ولایت قائم ہوتی ہے جبکہ ولی فقیہ کی ولایت [سیاسی ] تب ہی شروع ہوجاتی ہے جب اسکے ہاتھ میں حکومت آجاتی ہے کیونکہ حکومت کے بغیر ایک فقیہ کی حیثیت ایک عام مرجع کی سی ہے جیسا کہ باقی مرجع کرام ہے مثلاً سید علی سیستانی حفظہ اللہ وغیرھم جو احکامات دیتے ہے لیکن ان کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔

 

لہذا ولایت فقیہ کو ولایت معصومین پر قیاس کرنا بہت بڑی علمی خطا ہے۔

 

نوٹ : ھم نے اوپر فریقین کی دلیل کو یہ کہ کر رد کیا کہ وہ قیاس پر مبنی تھی تو کچھ احباب نے کہا کہ یہاں وہ قیاس مراد نہیں جو شریعت میں ممنوع ہے بکلہ ھم یہاں تسلسل کے قائل ہے جس کی نفی شریعت میں نہیں ہے

 

اب اگر مخالفین کی اس بات کو قبول بھی کیا جائے تو پھر بھی اس سے استدلال ممکن نہیں کیونکہ جو ایسا سوال کرتے ہے وہ لوگوں کو دھونکہ دیتے ہوئے دو اصطلاحات کو خلط ملط کرکے کنفوژ کرتے ہے :

 

* ایک “فقیہ کی ولایت ” جس سے مراد وہ تمام power جو ایک عام فقیہ کو ائمہ معصوم کی طرف سے عطا ہے مثلاً ایک فقیہ کی طرف شرعی امور میں رجوع کرنا وغیرھم ،

* دوسری اصطلاح “ولایت فقیہ ” عموماً اس سے مراد ایک فقیہ کی حکموت ہوتا ہے یا جس کے ذریعے سے سیاسی ولایت ایک علاقے میں ظاھر ہوجاتی ہے

 

امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیھما السلام کے بغیر چتنے بھی ائمہ گزرے ہیں کسی بھی امام نے آج تک سیاسی ولایت ہاتھ میں نہیں لی [ ہاں اگر مل جاتی تو بہتر تھا ] لیکن نہ ملنے کی صورت میں بھی انکی شرعی و الٰھی ولایت برقرار تھی [ لہذا یہاں سیاسی ولایت اور شرعیی ولایت میں فرق کرنے کی ضرورت ہے]

 

امام علی علیہ السلام کی الٰھی و شرعی ولایت اگرچہ دنیاوی قیود ، قومیت یا لسانیت کے قید سے پاک تھی لیکن سیاسی ولایت وہ تب ہی استعمال کر سکتے تھے جب لوگ ان پر اعتماد یا منتخب کرتے جیسا کہ ہوا بھی پہلے تین خلفاء کے دور میں انکے پاس یہ ولایت تھی لیکن ظاھر تب ہی کر پائے جب انکو لوگوں کی اکثریت نے منتخب کیا ۔۔۔۔ اور اس زمانے میں حجاذ کے علاوہ باقی علاقوں مثلاً چین ، مغرب نے انکو منتخب نہیں کیا لہذا امام علی علیہ السلام نے بھی کبھی انکے اوپر اپنی سیاسی ولایت کا دعوہ نہیں کیا [ اھل شام ، اھل جمل اور خوارج کے خلاف خروج اسلے کیا کیونکہ وہ باغی تھے ] لہذا جب ایک معصوم کی سیاسی ولایت ایک علاقے میں تب ہی ظاھر ہو سکھتی ہے جب وہاں کے لوگ اسکو منتخب کریں گے تو ایک فقیہ کی سیاسی ولایت [ ولایت فقیہ ] کیسے ایران سے باھر ظاھر ہو سکھتی ہے جب وہاں کے لوگوں نے اسکو منتخب نہیں کیا ہوگا

 

لہذا جس طرح معصومین علیھم السلام کو اللہ کی طرف سے پوری دنیا کی حکومت کی قدرت حاصل تھی تو فقہاء کے لے بھی وہی ہے لیکن کسی چیز پر قادر ہونے اور حقیقت میں فرق ہے کیونکہ قدرت امام علی علیہ السلام میں بھی تھی کہ وہ پہلے تین خلفاء کے زمانے میں حکومت کر سکھتا تھا لیکن کیا اصل میں حکومت ۔۔۔ یہ اصل مسئلہ ہے !

 

 

لہذا ھمارے جذباتی بھائیوں کو probablity اور Reality میں فرق کرنا سکھنا ہوگا

 

[واضح رہے کہ معصوم و فقیہ کی شرعی ولایت کسی ملک کی پابند نہیں لیکن سیاسی ولایت تب ہی ظاھر ہوگی جب وہاں کے لوگ انکو منتخب کریں گے ]

 

کچھ حضرات یہ بھی دعوہ کرتے ہے کہ ہر کسی دور میں امام زمانہ عج کا ایک خاص نائب ہوتا ہے جس طرح امام زمانہ عج کے غیبت الصغرٰی میں چار نواب تھے تو عرض ہے کہ امام زمانہ عج کی طرف سے نیابت دو قسم کی ثابت ہے :

 

* ایک نیابت خاصہ ہے جس میں امام نے اپنے چار خاص صحابہ کو نائب مقرار کیا اور انکا حکم اسی طرح قطعی تھا جس طرح امام کا فرمان ہوتا ہے جو دنیا کے ہر شئ پر لاگو ہوتا ہے

* دوسرے نیابت عامہ ہے جو تمام فقہاء کے لے ثابت ہے ۔جس کی اصل اس مہشور توقیع میں پائی جاتی ہے جسکو امام زمانہ عج نے اپنے دوسرے نائب محمد بن عثمان الامری کے ذریعے سے ھم تک پہنچایا جو اس طرح ہے :

 

اَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوْا فِيْهَا اِلٰى رُوَاةِ حَدِيْثِنَا فاِنَّهُمْ حُجَّتِىْ عَلَيْكُمْ وَ اَنا حُجَّةُ اللهِ

 

نئے پیش آنے مسائل کے لے ھماری احادیث کے رواہ کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ وہ ھماری طرف سے آپ پر حجت ہے اور ھم اللہ کی طرف سے [ بخار الانوار للمجلسی // جلد ۵۳ // صفحہ ۱۸۰ نقل عن احتجاج طبرسی ]

 

لہذا غیبت کبرٰی میں نیابت کسی خاص فرد کے لے نہیں بلکہ تمام رواہ احادیث کے لے ہے [ جو آجکے زمانے میں فقہاء یا مراجع کہلاتے ہے ]

 

اسی طرح امام زمانہ عج کی آخری توقیع مبارک بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے جسکو آخری نائب خاص نے اپنی موت سے چھے دن قبل ظاھر کیا تھا، اس میں یوں لکھا ہوا ہے :

 

 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَا عَلِىَّ بْنَ مُحَمَّدٍ السَّمرىّ، اَعْظَمَ اللهُ اَجْرَ اِخْوَانِكَ فِيْكَ فَاِنَّكَ مَيِّتٌ مَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ سِتَّةِ اَيَّامٍ، فَاجْمَعْ اَمْرَكَ وَلاَ تُوصِ اِلىٰ اَحَدٍ فَيَقُوْمَ مَقَامَكَ بَعْدَ وَفَاتِكَ فَقَدْ وَقَعَتِ الْغَيْبَةُ التَّامَّةُ فَلاَ ظُهُوْرَ اِلاَّ بَعْدَ اِذْنِ اللهِ تَعَالىٰ ذِكْرُهُ وَ ذَالِكَ بَعْدَ طُوْلِ الْاَمَدِ وَ قَسْوَةِ الْقُلُوْبِ وَامْتِلاَءِ الْاَرْضِ جَوْراً وَ سَيَأتِى شِيْعَتِىْ مَنْ يَدَّعِى الْمُشَاهَدَةَ اَلاَ فَمَنِ ادَّعىَ الْمُشَاهَدَةَ قَبْلَ خُرُوْجِ السُّفْيَانِىّ وَ الصَّيْحَةِ فَهُوَ كَذَّابٌ مُفْتَرٌ وَ لاَ حَوْلَ وَ لاَ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللهِ الْعَلِىِّ الْعَظِيْمِ-

 

 

اے علی بن محمد سامری ! اللہ آپکے بھائیوں کا آپکے بارے میں [اپکی موت ] عظیم اجر عطا فرمائیں ! آپ پر ۶ دنوں میں موت واقع ہوجائے گی لہذا آپ اپنا کام مکمل کریں اور کسی کو اپنے بعد نمائند/ نائب مقرر نہ کریں کیونکہ خاص نوابوں کا سلسلہ اب اختتام پزیر ہوگیا ہے اور غیبت کبرٰی آپکی وفات کے بعد شروع ہوجائے گی لہذا اب میرا ظہور بہت فاصلے کے بعد اللہ کے حکم سے ہی ہوگا جب لوگوں کے دل سخت ہونگے اور ایسے لوگ بھی ھمارے شیعوں میں سے نکلیں گے جو یہ دعوہ کریں گے کہ انہوں نے مجھے دیکھا ہے [ علامہ مجلسی ان الفاظ کی توضیع اس طرح کرتا ہے کہ اس سے مراد جو میرے بعد اپنی نیابت کا دعوہ کرے ] جو کوئی بھی ایسا دعوہ سفیانی اور آسمانی آواز سے پہلے کرے گا وہ جھوٹا اور دھونکے باز [دجال ] ہوگا ،کوئئ قوت و طاقت والا نہیں سوائے اس اللہ کے جو بہت بزرگ ہے

 

 

[ کتاب الغیبہ للطوسی //صفحہ ۵۹۳ ، کمال الدین و تمام النعمہ للصدوق // جلد ۲ // ۶۱۵ ، الاحتجاج للطبرسی // جلد ۲ // صفحہ ۸۷۴ ، وغیرھم اس حدیث پر تمام شیعہ امامیوں کا اتفاق ہے کہ یہ معتبر ہے ]

 

 

لہذا جو کچھ امام زمانہ عج سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ زمانہ غیبت کبرٰی میں جو کوئی امام کا خاص / واحد نائب ہونے کا دعوہ کرے وہ کذاب ہے کیونکہ اس زمانے میں نیابت عمومی ہے جو ہر فقیہ کے لے ثابت ہے اور یہ نیابت دینی و سیاسی دونوں میں ہے ۔۔۔۔ جس طرح امام علی علیہ السلام کی سیاسی ولایت تھی اسی طرح فقہاء کے لے بھی ثابت ہے مطلب جہاں لوگ انکو منتخب کریں یہ وہاں اپنی سیاسی ولایت ظاھر کر سکھتا ہے اسی طرح ہر فقیہ بھی ولی فقیہ بن سکھتا ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ لوگوں کی رضامندی بھی ہو تب ہی ظاھر ہوگی ، یہی وجہ ہے امام خمینی و سید رھبر کو ایرانی عوام نے منتخب کریا ہے اور سید سیستانی کو ابھی عرآقی عوام نے اسکا حق نہیں دیا ہے۔

 

 

لہذا فقہاء کے نیابت عمومی ہے لیکن اس بات کو دعوہ کرنا کہ فلان نائب یا نمائندہ ہے جھوٹ ہے اور جس طرح سیاسی امور میں ائمہ علیھم السلام تک کی ولایت محدود تھی [ واضح رہے انکی الٰھی ولایت کسی قید سے پاک ہے لیکن حکومت کرنے کے لے وہ بھی اس بات کے پابند تھے کہ انکی حکومت کو لوگ accept کریں ] اسی طرح ایک ولی فقیہ کی ولایت سیاسی بھی اسی خطے تک محدود ہے جہاں کے لوگوں نے انکو ولی فقیہ منتخب کیا ہے۔

 

 

 

 

اور امام خمینی علیہ الرحمہ کی وہ بات حق مبنی ہے کہ ” ولایت الفقیہ ولایت معصومین کا تسسل ہے ” بلکہ یہ بات ہر فقیہ کے لے صحیح ہے کیونکہ معصوم کی طرف سے ہر فقیہ کو ولایت حاصل ہوتی ہے [ جیسا کہ اوپر ذکر بھی کیا ہے ] لیکن ایک ولی فقیہ کو انکے علاوہ ایک خاص علاقے میں حکومت کرنے کا حق بھی ملتا ہے لہذا جو لوگ امام خمینی علیہ الرحمہ کی اس بات کو یہ سمجھتے ہے کہ جس طرح معصوم کی اطاعت پوری کائنات پر واجب ہے اسی طرح ایک ولی فقیہ کی اطاعت بھی تمام انسانوں پر واجب ہے تو یہ وہ بلکل غلط ہے

 

 

آخر میں یہی بات کہنا چاھتا ہوں کہ ولایت فقیہ ایک بہترین نظریہ ہے اور میری دلی خواھش بھی ہے کہ پوری دنیا میں ایسا نظام ہو لیکن جو بات ممکن ہی نہیں ہے اسکے بارے میں سونچھنے سے کیا وہ حقیقت میں بدل سکھتا ہے ،اسی طرح کی خیالی فکر پاکستان میں سید جواد نقوی صاحب نے لائی ہے جنکے مطابق پاکستانی نظام طاغوتی نظام ہے اور اس میں ووٹ ڈالنا جائز نہیں اور وہ اس وقت کا انتظار کر رہا ہے جب پاکستان میں ولایت فقیہ نافذ ہوجائے گا [جو فلحال ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں شیعہ کہلانے والے حضرات جن میں اسماعیلی ، اثناعشری (اصولی و اخباری ) نوربخش اور غالی سب ہے انکی تعداد ۱۵ فیصد ہے ] تو ذرا کوئی عقل کے ناخون لیں اور ھمیں یہ بتا دیں کہ کیا اتنی کم آبادی ایک ملک میں ولی فقیہ مقرر کر سکھتی ہے [ اگر بلفرض شیعہ آپسی اختلاف کے باوجود بھی کسی کو ولی فقیہ مقرر کریں گے تو کیا باقی ۸۵ فیصد اھل سنت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے ] ۔۔۔۔عجیب ۔۔۔۔۔بلکہ اگر پاکستانی آئین پر نظر ڈالی جائے تو وہاں صاف لکھا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکھتا ہے { وہ الگ مسلہ ہے کہ اس کو عمل میں لانے کی کوتائی ہے} اسکے برعکس لبنان کی مثال لیں وہاں کے آئین میں ایسا کچھ نہیں بلکہ وہاں آئین کے مطابق شراب جائز ہے ، زنا جائز ہے وغیرھم لیکن حزب اللہ الیکشن میں حصہ لیتی ہے اور انکے نمائندے بھی پارلمنٹ میں موجود ہے اور وہ اپنا سیاسی موفق پالمنٹ میں بیان کرتے ہے جبکہ سید جواد نقوی صاحب انکو اپنا Role Model تصور کرتا ہے لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو پاکستانی کے آئین کو طاغوتی نظام کہتا ہے اور ووٹ کو حرام [ واضح رہیں کہ ۱۹۷۳ء میں پاکستان میں وجود آنے والے آئین میں یہ ہے کہ مقتدر اعلی صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ گویا اس آئین کے مطابق اصل حکومت اللہ تعالی کی ہے، اور اسی خداوند عالم کے نائب کے طور پر آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے تحت اس ملک میں بسنے والے اللہ کے بندے صادق و امین افراد کو بطور حکمران چنیں گے ] !

 

لہذا یہاں کے علماء کرام پر فرض ہے کشمیر کے نواجوانوں کو ولایت فقیہ کے حقیقی معنی سمجھایا جائے نہ کہ انکو جذباتی بنا کر صرف نعرہ بازی کے لے انکی پرورش کی جائے کیونکہ نعرہ بازی یا مرگ بر ۔۔۔۔مرگ بر ۔۔۔۔۔ کہنا “جوانوں کی بیداری” نہیں بلکہ ایک پاٹ [ جہالت کے طبقے ] سے دوسرے پاٹ میں داخل ہونا کہلاتا ہے

 

آخر میں ایک حدیث مبارکہ نقل کر رہا ہوں جس پر عمل کرکے میرے نزدیک اس جہالت کو دور کیا جا سکھتا ہے ؛

 

امام جعفر صادق کے تین جلیل القدر صحابی زرارہ ، محمد بن مسلم اور برید العجلی روایت کرتے ہے کہ ابوعبداللہ [ یہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی کنیت تھی ] نے حمران بن اعین سے ایک مسلئے جسکے بارے میں اس نے امام سے پوچھا تھا کہا کہ : ” لوگ تباہ اس وجہ سے ہوجاتے ہے کیونکہ وہ سوال نہیں کرتے “ { الخصال للصدوق ۱/۱۲۷ اس حدیث کو الشيخ آصف محسني نے المعجم الاحادیث المعتبرۃ میں معتبر کہا ہے // باب :عالم سے سوال اور بحث کرنا // رقم ۲/-}

 

 

والسلام علیکم

 

 

ڈاکٹر آصف حسین

۱۵-اکتوبر- ۲۰۱۷ء [ ۲۴ محرم ۱۴۳۹ھ ]

مقام : المكتبة الاثناعشرية پلوامہ – کشمیر

 

اس لنک پر ڈاونلوڈ کریں : پی ڈی ایف  

امام بخاری کے بارے میں مہشور واقعہ کا رد 

ھمارے اھل سنت کی زبانوں پر امام محمد بن اسماعیل بخاری کے بارے میں ایک عجیب و غریب واقعہ زیادہ تر رہتا ہے جو اس طرح  ہے : 

جب امام بخارئ بغداد تشریف لائے تو وہاں کے ماہر محدثیں نے ایک حدیث کی سند کو دوسری حدیث کے متن پر اور ایک حدیث کے متن کو دوسرے حدیث کی سند پر لگا دیا ، انہوں نے روایتوں کو مقلوب کردیا مثلاً سالم کی حدیث کا نافع اار نافع کی حدیث کو سالم سے ملا دیا انہوں نے تقریباً ایک سو (۱۰۰) یا زیادہ حدیثوں میں ایسا کیا پھر جب انھوں نے یہ حدیثیں امام بخاری کو سنائیں تو آپ نے ہر حدیث کو اس کی اصل سند اور ہر سند کو اس کے اصل متن سے لگا جر بتادیا ، محدثین بغداد کی ان مقلوب و مرکب روایتوں میں سے ایک روایت بھی امام بخاری پر مخفی رہ کر رائج نہ ہو سکھی ، محدثین بغداد اور عام لوگوں نے اسکو بہت عظیم جانا اور اس فن حدیث میں امام بخاری کے بلند مقام کے قائل ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔ 




اس واقعہ کو ابن کثیر نے اختصار علوم الحدیث میں لای ہے لیکن کتاب کے محقق حافظ زبیر علی زائی نے اس کے بارے میں یوں نقل کیا ہے : 

تاریخ بغداد ۲/۲۰ ، مشائخ البخاری لابن عدی ق ۲/۱ بحوالہ حاشیہ المقع فی علوم الحدیث ۱/۲۳۲ ، امام بخاری اور محدثین بغداد کی طرف منسوب یہ سارا قصہ سند صحیح سے ثابت نہیں ، اس قصے کی سند میں حافظ ابو احمد بن عدی کے استاد نامعلوم و مجہول ہیں – نیز دیکھیں ماہنامہ الحدیث ۲۵ صفحہ ۱۳،۱۴ ، مہشور واقعات کی حقیقت صفحہ ۵۷،۵۸ 

حوالہ : اختصار علوم الحدیث – امام ابن کثیر الدمشقی (اردو ) // تحقیق حافظ زبیر علی زائی // صفحہ ۵۶ // طبع دھلی 


تحریر : ڈاکٹر  آصف حسین ۱۳ اکتوبر ۲۰۱۷ء 

فضائل صحابہ میں ایک صحیح اثر کا دفاع ! 


اھل سنت کے جلیل القدر امام ابو عبداللہ احمد بن حنبل کی فضائل صحابہ میں امام حسین بن علی علیہ السلام سے ایک اثر ملتا ہے جس میں اھل بیت علیھم السلام کے مظالم پر رونے کے فضائل ورد ہوئے ہیں۔ اثر اس طرح ہے : 

حدثنا أحمد بن إسرائيل قال رأيت في كتاب أحمد بن محمد بن حنبل رحمه الله بخط يده نا اسود بن عامر أبو عبد الرحمن ثنا الربيع بن منذر عن أبيه قال كان حسين بن علي يقول من دمعتا عيناه فينا دمعة أو قطرت عيناه فينا قطرة اثواه الله تعالى الجنة .

كتاب فضائل الصحابة للإمام أحمد بتحقیق شیخ وصی اللہ عباس المدنی // جلد ۲ // صفحہ ۱۳۹ // رقم ۱۱۵۴ // طبع دار ابن الجوزی 




اس حدیث پر بعض کم فہم و جاھل قسم کے لوگ یہ اعتراض کرتے ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور بہت ساری ایسی وجوہات نقل کرتے ہے جو حق مبنی نہیں ہوتی بلکہ عوام کو دھونکہ دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ ان ہی اعتراضات میں آج کسی محترمہ نے فیسب بک پر پوسٹ کیا تھ جس میں اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۰ 

نوٹ : کتاب کے محقق شیخ وصی اللہ عباس نے صرف احمد بن اسرائیل کی جہالت کی وجہ سے اس پر کوئی حکم نہیں لگایا ہے جبکہ یہ راوی ثقہ ہے بلکہ مخالف نے اس بات کا اعتراض خود کیا ہے 


* محترمہ لکھتی ہے :



اور اس کتاب میں ابو بکر احمد بن مالک نے تین قسم کی سند سے روایت لی ہے 


1)احمد بن مالک عن عبداللہ بن احمد بن حنبل عن ابیہ یعنی احمد بن حنبل 

2) ابو بکر احمد بن مالک عن عبد اللہ بن احمد بن حنبل عن غیر ابیہ 

3) ابو بکر احمد بن مالک عن غیر عبداللہ بن احمد بن حنبل 


 اس قسم کی تقریبا 200 اسناد ہیں 




اور یہ روایت کہ جس کے متعلق کلام کیا جارہا ہے یہ بھی اسی قبیل سے ہے 


تو اس روایت کی اصل سند یہ ہوئی 👇 


ابو بکر احمد بن مالک قال حدثنا احمد بن اسرائیل قال رایت فی کتاب احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ بخط یدہ نا اسود بن عامر ثنا الربیع بن منذر عن ابیی قال کان حسین …… 




الجواب : بلکل یہی بات کتاب فضائل الصحابہ کے محقق شیخ وصی اللہ عباس المدنی نے اس کتاب کے مقدمے میں لکھی ہے اسکے بعد کچھ صفحات آگے فضائل امام حسن ، حسین ، فاطمہ ، خدیجہ علیھم السلام کے بارے میں اس کتاب کے مرکزی راوی سے ۵ مختلف اسانید بھی بیاں کی ہے۔

* محترمہ نے آگے دعوہ کیا کہ اس کی سند میں دو جگہ انقطاع موجود ہے اور پہلے انقطاع کے عنوان سے یوں لکھتی ہیں : 




احمد بن اسرائیل ثقہ راوی ہے لیکن ادھر احمد بن اسرائیل امام احمد کے خط کا ذکر کر کے روایت کررہے ہیں اور اس میں چند علتیں ہیں 


1) احمد بن اسرائیل کی پیدائش 253 ھجری ہے جب کہ امام احمد بن حنبل کی وفات 241 ھجری ہے 

یعنی احمد بن اسرائیل امام احمد کی وفات کے بھی 12 سال بعد پیدا ہوئے 


تو کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے امام احمد کے خط کو پالیا 

جواب : میں حیران ہوں کہ اس اعتراض کا کیا جواب دوں کیونکہ محترمہ خود کہ رہی ہے کہ احمد بن اسرائیل امام احمد بن حنبل کے ۱۲ سال بعد پیدا ہوگیا۔۔۔۔۔ پھر امام احمد بن حنبل کا خط/ کتاب انکے وفات کے بعد ہی مل سکھتا ہے ،انکے ولادت سے پہلے نہیں [ اگر محترمہ کا اعتراض ہے کہ خطوط [ جو دراصل کتاب ہے اسکی وضاحت آگے آئے گی ] کے لے بھی اسانید ہونی چاھے تو جو بھی آج تک خطوط اسلامی کتب میں نقل ہوئے ہے وہ سب غیر معتبر قرار پائیں گے کیونکہ انکی سند نہیں ہوتی بلکہ ایک قاصد [ مجہول ] کے ذریعہ دوسروں کو بھیجا جاتا ہے مثلاً امام احمد بن حنبل کے ہی مختلف مکتوبات طبع ہوئی ہے [ ھندوستان میں شیخ صفی الرحمان مبارکپوری کی تحقیق سے کچھ شائع ہوئے ہے ] ۔


* محترمہ آگے لکھتی ہے : 


2) اگر ان کو امام احمد کا خط مل بھی گیا تو انہوں نے کیسے پہچانا کہ یہ امام احمد کا خط ہے حالانکہ ان کی تو امام احمد سے ملاقات بھی نھی ھوئی 

جواب :اولاً –  اگر محترمہ نے ثقہ کہنے سے پہلے احمد بن اسرائیل کا احوال کتب الرجال میں پڑھا ہوتا تو ایسا بچگانہ اعتراض نہ کرتی۔ 

‎امام خطیب البغدادی فرماتے ہے : أحمد بن إسرائيل ، أحمد بن سلمان النجاد الفقيه الحنبلي، 

حوالہ : موضح الأوهام – امام خطیب البغدادی // جلد ۱ // صفحہ ۴۴۰ 
 توثیق : 

۱- امام خطیب البغدادی انکے بارے میں یوں فرماتے ہے : وکان صدوقا عارف [تاريخ بغداد ج4-ص412]

۲ – امام درقطنی نے اس پر معمولی کلام کیا ہے لیکن اس پر نقد شیخ معلمی الیمانی نے کیا وہ آخر میں یوں کہا : لم ينكر عليه حديث واحد [ التنكيل ترجمة 19] 

۳ – الحافظ ابن العديم انکے بارے میں یوں فرماتے ہے : كان فقيها مفتيا ومحدثا متقنا، واسع الرواية، مشهور الدراية [بغية الطلب في تاريخ حلب ج2-ص766]

۴ – امام ذھبی نے بھی تذکرہ الحفاظ میں اس کے بارے میں یوں لکھا ہے : الامام حافظ الفقیہ شیخ العلماء ببغداد ۔۔۔ [ تذکرہ الحفاظ -ج 3 – ص 868 ] 

۵ – شیخ الألباني نے بھی انکا حافظ صدوق کہا ہے [ إرواء الغليل ج3-ص40] 

لہذا ثابت ہوگیا یہ بڑے درجے کا ثقہ راوی ہے کیونکہ انکے لے محدثین نے بہت بڑے الفاظ استعمال کئے ہے مثلاً حافظ ، عارف ، فقیہ ، شیخ العلماء وغیرھم اور یہ جنبلیوں کا شیخ بھی تھا  
لہذا اگر انہوں نے امام احمد بن حنبل کے کسی تحریر کا ذکر کیا تو انہیں یہ خط / کتاب ملی ہوگی کیونکہ ان بزرگ سے یہ امید نہیں کی جا سکھتی کہ انہوں نے امام احمد پر جھوٹ بھاندا کیونکہ نہ تو اس پر تدلیس کی تہمت ہے اور نہ ہی یہ کذاب راوی ہے۔ [ اگے وضاحت آرہی ہے کہ یہ دراصل کوئی تحریر نہیں بلکہ باقاعدہ امام احمد کی کتاب سے تگئی ہے ]

ثانیاً – آجکل جو مخطوطات مختلف علماء کو ملتے ہے ان سے علماء کیسے طے کرتے ہے کہ فلان کاتب کی لکھائی ہے ۔۔۔۔ جس قاعدے سے وہ معتبر قرار پاتا ہے اسی قاعدے سے احمد بن اسرائیل نے بھی اسکو امام احمد کی لکھائی تصور کیا 

* محترمہ لکھتی ہے : 




3) ان کو امام احمد کا خط دیا کس نے ? وہ شخص بھی مجہول ہے 


جواب : عرض ہے کہ وجادہ میں اس خط یا کتاب کو لانے والے کا مجہول ہونا مضر نہیں بلکہ راوی خط/ کتاب کے لکھنے والے کی تحریر جانتا ہوں اور یہاں ایک بڑا حنبلی امام ، فقیہ اور شیخ العلماء لکھ رہا ہے کہ امام احمد بن حنبل کی ہاتھ کی لکھائی تھی اور یہ امام احمد کے زمانے کے بہت قریب ہے لہذا وجادہ مقبول قرار پائے گا۔
 
* محترمہ لکھتی ہے : 


4) یہ کیسے ممکن ہے کہ عبداللہ بن احمد بن حنبل یعنی امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے کے جن سے امام احمد کی اکثر روایات مروی ہیں ان کو تو اس حدیث کا علم نا ہوا لیکن ایک دوسرے راوی کو کہ جو امام احمد کی وفات کے بھی بعد پیدا ہوا اسکو یہ حدیث لکھی ہوئی مل گئی فیاللعجب 




جواب : تو کیا اس منطق کے مطابق جو بھی انکے صاحبزادے کے علاوہ ان سے نقل ہوا ہے وہ معتبر نہیں ۔۔۔ عجیب منطق ہے۔ عجیب 
کیا بعد میں ملنے والا ہر مخطوط غیر معتبر ہوگا اگر ایسا ہے تو کوئی کتاب اپکے یہاں معتبر قرار نہیں پائے گی۔

* محترمہ یوں لکھتی ہے : 

وجادۃ کے متعلق راجح قول یہ ہے کہ ایسے راوی کی روایت قبول کی جائیگی مگر تین شرائط کے ساتھ 


(1) کہ وجادۃ کرنے والا ثقہ ہو اور تدلیس کرنے والا نا ہو 


(2) کہ وہ ان میں سے ہو کہ جو اپنے شیخ کے خط کو پہچانتے ہوں اور اس کا واسطہ (شیخ کے خط تک پہنچنے کا) بھی ثقہ ہو اور معلوم ہو کہ انہوں نے کس سے لیا 


(3) باقی سند بھی صحیح ہو




تو پہلی شرط تو پوری ہورہی ہے کہ ثقہ بھی ہے اور تدلیس سے پاک بھی 


لیکن دوسری اور تیسری شرط معدوم ہے 




جواب : یہاں وجادہ مقبول ہے کیونکہ جو دوسری شرط انہوں نے نقل کی ہے کہ شیخ کے خط کو پہچانتا ہو اور اس تک سلسلہ سند بھی موجود ہو بلکہ یہاں ان محترمہ نے تدلیس سے کام لیا ہے کیونکہ یہاں صرف وجدت نہیں بلکہ یہ بھی لکھا ئے کہ امام احمد بن حنبل کی کتاب میں ایسا لکھا ہے اور سب اھل علم جانتے ہے کہ کتاب سے روایت نقل کرنا معتبر ہے اور اسکے کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی چناچہ شیخ کفایت اللہ سنابلی اپنی کتاب میں اسکے بارے میں یوں فرماتے ہے : 

واضح رہے کہ امام مدائنی صاحب تصنیفات ہیں.خود امام ذھبی نے بھی ان کی تصنیفات کے بارے میں کہا ہے : 

‎امام مدائنی مہشور کتابوں کے مصنف ہیں ( تاریخ الاسلام ت بشار ٥ /٦٣٨ ) 

‎اسکے بعد امام ذھبی نے انکی کئی تصانیف کا ذکر بھی کیا ہے اور صاحب تصانیف محدث کے حوالے سے مع سند کوئی بات نقل کی جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ناقل نے اسے صاحب تصنیف کی کسی کتاب سے نقل کردہ روایت معتبر ہوتی ہے…. 

‎حوالہ : یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ ٣٤٢ / طبع ممبئ


لہذا یہ اعتراض کرنا کہ کتاب تک سند کہاں ہے بے بنیاد ہے جبکہ امام احمد بن حنبل بھی صاحب تصانیف ہے۔ 

* محترمہ آگے ایک اور دعوہ کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ : 

2…. سند کے آخر میں بھی انقطاع ہے 


وہ اس طرح کے منذر کا سماع کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں 


جواب :  

پہلی بات تو یہ کہ منذر کا سماع ربیع بن حثیم ( جو 63ھ میں فوت ہوگئے ) سے ثابت ہے [ صحیح بخاری – کتاب الرقاق ] 

– امام حسین علیہ السلام کی شھادت 61ھ میں کربلا میں ہوئی 

– لہذا امام حسین و ربیع بن حثیم کی وفات قریب ہے اور ایسا گمان کہ منذر امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد پیدا ہوکر ربیع سے سماع کیا [ کیونکہ کل کسی حنفی نے یہ جواب دیا تھا ] یہ ایک بچگانہ فعل ہے کیونکہ 2 سال کے بچہ کا دودھ پیتے پیتے سماع ممکن نہیں ، لہذا یہاں دلائل اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہے کہ منذر نے امام حسین کا معاصرہ پایا اور معاصر کافی ہوتا ہے سماعت کے لے الا کوئی محدث خاص سماع کا انکار کریں جیسا کہ شیخ البانی نے بھی کہا ہے :

‎يكفينا في هذه الحالة ثبوت المعاصرة وإمكان اللقاء ” كما هو المختار عند جماهير العلماء بشرط السلامة من التدليس ] السلسلة الصحيحة ج7-ص1155]

* محترمہ پھر لکھتی ہے : 
اور جناب حسین کے شاگردوں میں منذر کا نام نہیں 

اسی طرح منذر کے شیوخ میں بھی جناب حسین کا نام نہیں 

جواب : معاصرہ کافی ہوتا ہے جیسا کہ ھم نے اوپر ثابت بھی کردیا ، اگر یہ اصول کہ کتب الرجال میں شیوخ و شاگرد کا ہونا ضروری ہو تو بہت سارے صحیج احادیث سے ہاتھ دھونا پڑھ جائے گا۔ 
اور ایک بات شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اپنے ایک رسالہ اسی بحث کے زیل میں نکتہ بیان کیا ہے وہ اس طرح لکھتے ہے : 

اب ان کا تعین ہوجانے کے بعد ھم آگے بڑھتے ہیں اور ان کے استاذ ” مسلم بن ابراھیم ” کا تعین کرتے ہیں ، اس کے لے کتب رجال میں ھم ” محمد بن عیسی بن حیان ” کے استتذہ کی فہرست دیکھےی ہیں لیکن اس فہرست میں مسلم بن ابراھیم کا نام کہیں نہیں آتا لیکن اس کے ساتھ ان کے اساتذہ کی فہرست درج کرنے والے ائمہ کی طرف سے یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ ” وجماعة ” – اور ایک جماعت سے انہوں نے روایت کی ہے [ سیر اعلام النبلا للذھبی ۱۳/۲۱ 
یعنی منذرجہ فہرست کے علاوہ بھی ایک جماعت ان کے اساتذہ میں شامل ہے جن کا ذکر اختصار کے پیش نظر جھوڈ دیا گیا ہے ۔ اب یہ بھی ہوسکھتا ہے کہ ” مسلم بن ابراھیم ” کی اساتذہ کی اس جماعت میں شامل ہوں جن کا ذکر اختصار کےُسبب ائمہ نے چھوڈ دیا ۔

حوالہ : ایام قربانی اور آثار صحابہ – شیخ کفایت اللہ سنابلی // صفحہ ۱۷ 





اور منذر بن يعلي الثوري کا حال نقل کرتے ہوئے ابن حجر العسقلانی نے تہذیب التہذیب میں یوں لکھا : 

531- “ع – المنذر” بن يعلى الثوري1 أبو يعلى الكوفي روى عن محمد بن علي بن أبي طالب والربيع بن خيثم وسعيد بن جبير وعاصم بن ضمرة والحسن بن محمد بن علي بن أبي طالب وغيرهم 

حوالہ : تہذیب التہذیب لابن حجر // جزء ۱۰ // صفحہ ۳۰۴ // طبع مکتبہ الشاملہ 




یہاں بھی ابن حجر نے آخر میں لفظ ” وغیرھم ” استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے اس کے شیوخ اور بھی ہے اور غالب احتمال ہے ان میں امام حسین علیہ السلام بھی ہونگے جیسا کہ شیخ سنابکی صاحب نے استدلال کیا۔ 

* آخر میں اس محترمہ نے اسکے متن پر کلام کرنا چاھا لیکن اگر دیکھا جائے تو جو علوم الحدیث کا طلاب علم ہوتا ہے اسکا کام صرف سند پر حکم لگانا ہوتا ہے متن کا کام فقیہ کا ہوتا ہے [ الحمدللہ میں آپکے دلائل کا پورا رد کر سکھتا ہوں لیکن آپکو آئینہ دکھانے کے لے محدثین کے اقوال نقل کر رہا ہوں تاکہ آپ خود ہی محث ، فقیہ ، متکلم و مفسر بنے سے اجتناب کریں ]
ابن القطان  اس کے بارے میں یوں لکھتے ہے : 

ووظيفة المحدث النظر في الأسانيد ، من حيث الرواة والاتصال والانقطاع ، فأما معارضة هذا المتن ذلك الآخر ، وأشباه هذا ، فليس من نظره ، بل هو من نظر الفقيه .

محدث کا کام اسانید دیکھنا ہوتا ہے رواہ ، اتصال اور منقطع ہونے کے تناظر میں اور جہاں تک متن کے اختلاف کا تعلق ہے تو یہ اسک کام نہیں بلکہ یہ کام فقیہ کا ہوتا ہے 

حوالہ : بيان الوهم والإيهام لابن القطان // صفحہ ۳۱۷ 



ابن حجر العسقلانی نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے : 

فإن قيل : إنما حكم عليه بالوضع ، نظرا إلى لفظ المتن ، وكون ظاهره مخالفا للقواعد . قلنا : ليست هذه وظيفة المحدث . 

ابن حجر ایک جگہ امام ابن الجوزی کا رد کرتا ہے کیونکہ انہوں نے المسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث کو موضوع قرار دیا جسکا متن انکے مطابق قوائد الشریعہ کے خلاف تھا ۔

ابن حجر نے کہا : میں کہتا ہوں یہ محدث کا کام نہیں ہے 

حوالہ : النكت // جزء ۱ // صفحہ ۴۵۴ / مکتبہ الشاملہ 


  •  نوٹ : ابھی کچھ حضرات نے یہان کمنٹ کیا کہ اس میں ربیع بن منذر اور انکے والد مجہول ہے تو عرض ہے کہ فضائل صحابہ کے اھل الحدیث محقق شیخ وصی اللہ عباس المدانی نے صاف احمد بن اسرائیل کے علاوہ سب کو ثقہ کہا ہے اور بطور مثال ربیع بن منذر الثوری کا ذکر کیا ہے جسکو ابن معین نے ثقہ کہا ہے اور انکے والد بھی ثقہ جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے تقریب التہذیب میں اسکو ثقہ قرار دیا ہے 


حوالہ : تقریب التہذیب لابن حجر // صفحہ ۵۷۶// رقم ۶۸۹۳ // طبع دار المنھاج 




لہذا اسکی سند میں کوئی غبار نہیں بلکہ یہ صحیح ہے 

تحریر : ڈاکٹر آصف حسین ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۷ء 

شیخین کی خلافت کے بارے میں ایک حدیث کا رد 

پرسوں کسی اھل سنت محترمہ نے ھماری ایک پرانی پوسٹ جس میں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ نے صاف طور پر امام علی علیہ السلام کو اپنے بعد ہر مومن کا خلیفہ قرار دیا تھا  [ لنک ] کا جواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ابوبکر ، عمر و عثمان کے بارے میں بھی ایسی روایت اھل سنت کتب میں ملتی ہے اور بحوالہ کتاب السنہ لابن ابی عاصم ایک حدیث نقل کی تھی جو اس طرح ہے : 
السنہ لابن ابی عاصم، 1191

نبیﷺ نے مسجد میں فرمایا 

ایک پتھر میرے ساتھ، ابوبکر کا رکھئے، پھر عمر کا رکھئے، پھر عثمان کا رکھئے کہ میرے بعد یہ خلیفہ ہوں گے۔

الجواب : امام ابن ابی عاصم نے یہ حدیث مع سند اس طرح نقل ہوئی ہیں :

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ ثنا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ثنا الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ عَنْ سَفِينَةَ قَالَ بَنَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسْجِدًا فَقَالَ: “لأَبِي بَكْرٍ ضَعْ حَجَرًا إِلَى جَنْبِ حَجَرِي ثُمَّ قَالَ لِعُمَرَ ضَعْ حَجَرًا إِلَى جَنْبِ حَجَرِ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ قَالَ لِعُثْمَانَ ضَعْ حَجَرَكَ إِلَى جَنْبِ حَجَرِ عُمَرَ ثُمَّ قَالَ هَؤُلاءِ الْخُلَفَاءُ مِنْ بعدي”.
کتاب السنہ کے محقق شیخ ناصر الدین البانی نے اسکی سند کو ضعیف قرار دیا ہے چناچہ وہ یوں لکھتے ہے : 

إسناده ضعيف ۔۔۔۔۔۔

شیخ نے اس حدیث کے تمام طرق کو جمع کیا ہے اور پھر سب پر ضعیف کا حکم لگایا ہے 


حوالہ : کتاب السنہ ومع ظلال الجنۃ فی تخریج السنہ لابن ابی عاصم – شیخ محمد ناصر الدین البانی // صفحہ ۵۰۵ // رقم ۱۱۵۷ // طبع المکتبہ اسلامیہ ریاض 






حافظ زبیر علی زائی نے بھی امام بخاری کی کتاب الضعفاء کی تحقیق میں اس حدیث پر اسناد ضعیف کا حکم لگا دیا ہے۔ 

حوالہ : ٹحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء للبخاری – شیخ زبیر علی زائی // صفحہ ۳۹ // رقم ۹۹ // طبع المکتبہ الاسلامیہ پاکستان 



لہذا ثابت ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس استدلال صحیح نہیں 

تحریر : ڈاکٹر آصف حسین ۲۴ ستمبر ۲۰۱۷ء 

کتاب “جوانان شیعہ کو راہ حق پر گامزن کرنے کے والے جند سوالات” کا تحقیقی جائزہ – قسط ۲ 

اھل سنت کا ایک جاھل طبقہ جس کو بحث کرنے کے اصول و ضوابط کا علم بھی نہیں بس کتاب لکھنے کے شوقین ہوتے ہے شیعہ امامیہ پر بے جا اعتراض کرتے ہے اور ان ہی اعتراضات  میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ ” اگر شیعہ امامیہ کے بقول ائمہ علیھم السلام کو اپنے قتل/موت کا وقت و جگہ کا علم ہوتا ہے تو وہ کیوں اس جگہ جاتے ہے اور خودکشی کا ارتکاب کرتے ہے “ یہی بات ایک شیعہ مخالف کتاب میں بھی دیکھنے کو ملی ۔ چناچہ مولف یوں لکھتا ہے : 


 
پہلا اعتراض جو انہوں نے کیا ہے کہ  شیعہ کے مطابق اماموں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کب (  ( کس جگہ و وقت) قتل ہوجائیں گے تو اسکا جواب یوں ہے : 

ممبئ کے اھل الحدیث عالم شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اپنی کتاب ” یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ  میں معجم الکبیر سے ایک حدیث نقل کی ہے وہ اس طرح ہے : 

عبداللہ بن عباس فرماتے ہے کہ حسین علیہ السلام نے مجھ سے ( کوفہ کی طرف روانگی کے وقت ) اجازت طلب کی تو میں نے کہا : اگر میری اور آپکی شان کے خلاف نہ ہوگا تو میں آپکو پکڑ مضبوطی سے کر رکھتا ۔ عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ اس پر حسین علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں فلان فلان مقام پر قتل کردیا جاؤں گا ، یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ بہتر ہے میری وجہ سے مکہ کی حرمت پامال ہو ، عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ یہ بات کہ کر حسین نے مجھے مطمئن کردیا 
[ المعجم الکبیر للطبرانی -۳/۱۱۹ – اسناد صحیح ]

حوالہ : یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ // صفحہ ۳۴۶ // طبع ممبئ 



اس صحیح السند اثر سے صاف ظاھر ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو اپنے موت کا علم تھا اور جگہ کا بھی کہ کہاں قتل کیا جاؤں گا ۔۔ اور اس اثر سے یہ بھی ثابت ہوتا کہ موت کے وقت و جگہ کا علم ہونکے کے باوجود بھی وہ کربلا کی طرف چلے گئے ۔۔۔ مقصد صرف ایک تھا کہ کعبہ کا تقدس برقرار رہیں ۔۔۔ لہذا اسکو خودکشی سے تعبیر کرنا جاھلانہ عمل ہے بلکہ یہ خودکشی والا اعتراض تو ابن عباس نے بھی نہیں کیا جسکو امام حسین علیہ السلام نے خود یہ خبر بھی دی ۔

دوسر اعتراض جو انہوں نے نقل کیا ہے کہ  شیخ کلینی نے کتاب الکافی میں نقل کیا ہے کہ ائمہ کو اختیار ہوتا ہے کہ کب مریں گے تو عرض ہے [جواب ] پہلے اپنی کتابیں ہی دیکھ لیتے تو ایسا بچگانہ اعتراض نہ کرتے 

اھل سنت کی سب سے صحیح ترین کتاب بعد از قرآن میں ایک حدیث اس طرح آئی ہے : 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ : ” خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي : مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ ؟ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَالْعَبْدَ ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا ۔۔۔۔۔ الخ 

ابوسعید خدری نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا ( کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے ) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت ۔ یہ سن کر ابوبکر رونے لگے ، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر خدا نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے ۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے ۔۔۔۔ الخ 

حوالہ : صحیح بخاری ا امام محمد بن اسماعیل بخاری // کتاب صلاۃ // باب خوخہ والممر فی المسجد // رقم ۴۶۶ // طبع بیت الافکاریہ 


لہذا ثابت ہوا کہ ایک حجت خدا ( جو اس حدیث میں خود رسول اللہ صلی علیہ وآلہ ہے ) کو اللہ نے موت اور حیات میں اختیار دیا تھا اور موت سے پہلے انکو اللہ کے طرف سے اطلاع دی جاتی ہے کہ آپکو طویل زندگی چاھے یا موت ،  اب اگر باقی حجت خدا ( کیونکہ شیعہ امامیہ کا عقیدہ ہے کہ امام منصوص من اللہ ہوتا ہے ) کے لے بھی اللہ نے ایسی فضیلت رکھی ہو تو اس کے انکار کی کیا وجہ ہے 
نوٹ : المسند – احمد بن حنبل کی ایک حدیث میں تو صاف لکھا ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ کی وفات کے نزدیک کا واقعہ ہے 

لہذا ثابت ہوا کہ کس طرح اھل سنت کے یہ مناظر اپنے ہی لوگوں کو دھونکہ دینے کی کوشش کرتے ہے جبکہ جن عقائد کے بنا پر یہ شیعہ امامیہ کو تنقص  کرتے ہے وہ انکے یہاں بھی ثابت ہے ۔۔ الحمدللہ 

لطیفہ : 

اھل سنت ھمارے عقائد نقل کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہے کہ شیعہ کے عقائد عجیب و غریب ہے جبکہ اوپر الحمدللہ ھم نے  ثابت بھی کردیا کہ ھم ان عقائد میں منفرد نہیں بلکہ اھل سنت کے یہاں بھی ایسا ہی عقیدہ ملتا ہے فرق صرف اتنا ہے انکے علماء ظاھر نہیں کرتے ! 
اب دیکھیں انکے یہاں اور کیسا کیسا عقیدہ ملتا ہے : 

‎3407. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ قَالَ ارْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعَرَةٍ سَنَةٌ قَالَ أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ ثُمَّ الْمَوْتُ قَالَ فَالْآنَ قَالَ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنْ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ ف…




  ابوہریرہ نےبیان کیاکہ اللہ تعالی نےحضرت موسیٰ کے پاس ملک الموت بھیجا جب وہ آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا  ملک الموت ،اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اورعرض کیا ہے تونے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کےلیے تیار نہیں ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا کہ دوبارہ ان سے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کے پیٹھ پررکھیں ،ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آجائیں ان میں سے ہربال کےبدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی۔۔۔ 




حوالہ : صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری // کتاب احادیث انبیاء // باب وفاۃ موسی و ذکرہ بعد // صفحہ ۳۸۵ // رقم ۳۴۰۷ // طبع بیت الافکاریہ 

یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے : 

حوالہ : صحیح مسلم – امام مسلم بن حجاج نیساپوری // کتاب فضائل // باب من فضائل موسی  // صفحہ ۵۹۹ // رقم ۲۳۷۲ // طبع بیت الافکاریہ 

اب عرض ہے ملک الموت کا پہلے موسی کو روح قبض کرنے کی اجازت لینا پھر موسی کا غصہ ہونا اور ملک الموت سے دو ہاتھ کرنا جس میں بے چارے ملک الموت کی آنکھ ضائع ہوجاتی ہے پھر ایک آنکھ والا ملک الموت کا اللہ تعالی سے شکایت کرنا کہ مجھے کس بندے کے پاس بھیجا ہے ، پھر ملک الموت کو علاج کرکے واپس بھجنا اور موسی کو اور حیات دینا ۔۔۔۔  وغیرھم 

کیا یہ سب عجیب نہیں لگ رہا ہے آپکو یا یہ آپکے یہاں عام مسلہ ہے ؟ 





تحریر : ڈاکٹر آصف حسین ۱۸ ستمبر ۲۰۱۷ء 

رسول اللہ ﷺ  کی دو بیویوں میں فرق ! 

جب ھم کتب احادیث کا مطالعہ کرتے ہے تو ہر کسی باشعور انسان کے لے واضح ہو جاتا ہے کہ جناب عائشہ کا امام علی علیہ السلام کے بارے میں کیا رویہ تھا، امام علی علیہ السلام پر کثیر تعداد میں صحابہ و تابعین سب و شتم کرتے تھے جیسا کہ ھم نے اس سے پہلے ایک مقالے میں یہ بات ثابت بھی کی ہے لنک   لیکن ازواج النبی کا اس فعل قبیح کے لے کیا موقف تھا وہ کچھ یوں ہے : 

جناب عائشہ بنت ابی بکر : 



امام حمد بن حنبل نے اپنی کتاب ” المسند ” میں ایک حدیث لائی ہے جو اس طرح ہے : 

جاء رجل فوقع في علي وفي عمار عند عائشة فقالت : اما علي فلست قائلة لك فيه شيئا وأما عمار فإني سمعت رسول الله ( ص ) يقول فيه : ” لا يخير بين أمرين الا اختار ارشدهما ”


عطا بن یسار بیان کرتے ہے کہ ایک آدمی آیا اور جناب عائشہ کے سامنے علی و عمار کے بارے میں کچھ (بدکلام ) کرنے لگا تو جناب عائشہ نے کہا : جہاں تک علی کا معاملہ ہے میں انکے بارے میں کچھ کہ نہیں سکھتی لیکن عمار کے بارے میں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ” جب بھی ان پر دو کام پیش کئے گئے تو انھوں نے ان میں سے صحیح کام کا انتخاب کیا 

کتاب کے محقق نے نیچھے لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام ابن حبان ، امام ترمذی ، امام حاکم ، امام ذھبی وغیرھم نے صحیح کہا ہے 




حوالہ : المسند احمد بن حنبل // مسند عائشہ // جلد ۲ // صفحہ ۹۳۶ // رقم ۲۵۳۳۱ (۲۴۸۲۰) // طبع بیت الافکاریہ الدولتیہ 




جناب ام سلمہ : 




امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ میں ایک حدیث نقل کی ہے جو اس طرح ہے : 

عن ابي عبد الله الجدلي قال  دخلت على ام سلمة قال : ايسب رسول الله (ص) فيكم  قلت : سبحان الله او معاذ الله ـ قالت : سمعت رسول الله (ص) يقول : من سب عليا فقد سبني .” 

ابو عبداللہ جدالی روایت کرتے ہے کہ میں ام سلمہ کے یہاں داخل ہوا تو انہوں نے فرمایا : آپکے یہاں کیوں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ کو گالیاں دی جا رہی ہے ، میں نے جواب دیا ” سبحان اللہ یا معاذ اللہ تو انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ سے سنا ہے کہ جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی 




کتاب کے سلفی محقق استاد ڈاکٹر وصی اللہ عباس نے اس حدیث کو زیل میں کہا ہے کہ : اسکی سند صحیح ہے 


حوالہ : فضائل الصحابہ – امام حمد بن حنبل // باب فضائل علی ابن ابی طالب // جلد ۲ // صفحہ ۵۳ // رقم ۱۰۱۱ // طبع دار ابن جوزی 





ان دونوں احادیث سے آپ بخوبی سمجھ سکھتے ہے کہ کس کے دل میں مولا علی کے لے محبت تھی اور کس کے دل میں بغض  تھا


نوٹ : جو لوگ کہتے ہے کہ جناب عائشہ سے علی علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں احادیث مروی ہے تو عرض ہے ان فضائل کا کیا فائدہ جب عین وقت پر فضائل کو چھپایا جائے جبکہ امام علی علیہ السلام پر سب و شتم ہو رہا ہو 



تحریر : ڈاکٹر آصف حسین ۱۲ ستمبر ۲۰۱۷ء 

تابعی کا اعتراف کہ وہ تمام صحابہ سے زیادہ علم رکھتا ہے ! 

عام طور پر اھل سنت کے یہاں ایک خودساختہ اصول بنایا گیا کہ صحابہ کی رائے سب سے مقدم ہے ۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ رائے سلف کے یہاں بھی اسی طرح مہشور تھی یا علماء سلف اسکی مخالفت کرتے تھے 

امام ابن عبدالبر نے اس حوالے سے اپنی کتاب میں ایک اثر نقل کیا ہے جو اس طرح ہے : 

‎حدثنا عبد الوارث بن سفيان ثنا القاسم بن أصبغ ثنا احمد بن زهير ثنا هارون بن معروف ثنا ضمرة عن ابن شوذب قال: 
” كان الضحاك بن مزاحم يكره المسك، فقيل له إن أصحاب محمد كانوا يتطيبون به، قال: نحن أعلم منهم 

ابو شوذب فرماتے ہے کہ ضحاک بن مزاحم مسک ( ایک قسم کی خوشبو ) کو مکروہ سمجھتے تھے ، ان سے پوچھا گیا کہ محمد صلی علیہ وآلہ کے صحابہ تو اسکو استعمال کرتے ہے تو اس نے جواب دیا میں ان سب سے زیادہ عالم ہوں



کتاب کے محقق ابو الاشبال زھیری نے اس روایت پر حسن کا حکم لگایا ہے 

حوالہ : جامع بیان العلم و فضلہ – ابن عبدالبر // جلد ۲ // صفحہ ۲۵۸ // رقم ۲۱۵۲ // طبع دار ابن جوزی 


حافظ ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب ” تقریب التہذیب ” میں یوں فرماتے ہے : 

‎2978- الضحاك ابن مزاحم الهلالي أبو القاسم أو أبو محمد الخراساني صدوق كثير الإرسال من الخامسة مات بعد المائة 4

ضحاک بن مزاحم الھلالی انکی کنیت ابو القاسم یا ابو محمد خراسانی تھی ، یہ سچا تھا لیکن کثرت سے ارسال بھی کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ 




نیچھے کتاب کے محقق نے انکے بارے میں کہا ہے کہ یہ مہشور مفسر قرآن تھے 


حوالہ : تقریب التہذیب – ابن حجر العسقلانی  // صفحہ ۳۱۴ // رقم ۲۹۷۸ // طبع دار المنھاج 


اسی طرح مہشور اھل الحدیث محقق شیخ زبیر علی زائی نے بھی مسائل ابن ابی شیبہ  میں اسکے ایک اثر کو حسن قرار دیا اور انکو ثقہ قرار دیا۔ چناچہ وہ یوں لکھتے ہے :

※ضحاک بن مزاحم – یہ ثقہ ہے – اور اسکو احمد بن حنبل ، ابن معین ، ابوزرعہ الرازی وغیرھم نے ثقہ قرار دیا ، انکی وفات سنہ ۱۰۶ھ یا اسی کے قریب ہوئی اور انکی روایت ابن عباس سے منقطع ہوتی ہے 

حوالہ : مسائل محمد بن عثمان ابن ابی شیبہ بتحقیق حافظ زبیر علی زائی // صفحہ ۴۴ // رقم ۲۹ // طبع مکتبہ الاسلامیہ پاکستان 



 

تحریر : ڈاکٹر آصف حسین ۱۲ ستمبر ۲۰۱۷ء

بداء اور احسان الٰھی ظہیر کی تدلیس ! 

‎اکثر دیکھا ہے کہ اھل سنت علماء جب شیعہ امامیہ کی کتب سے نقل کرتے ہے تو تدلیس سے کام لیتے ہے تاکہ عوام کو یہ تاثر ملے کہ شیعہ کا عقیدہ عجیب و غریب ہے جبکہ یہ عقیدہ خود اھل سنت کے یہاں بھی ہوتا ہے۔ ان ہی مسائل میں مسئلہ بداء [ جس کا معنی شیعہ امامیہ کے یہاں ” اللہ کا ارادہ ” یا ” وہ کسی شئی کو بدلنے پر قدرت رکھتا ہے” مثلاً کوئی دعا کرے تو اسکی لے رحمت بڑ جائے گی – تو کیا کوئی مسلماں یہ سوال کر سکھتا ہے کہ دعا سے پہلے اللہ کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ اس بندے کی طرف رحمت کو بڑا دیگا – معاذ اللہ ایسا ہر گز کوئی تصور ہی نہیں کر سکھتا ہے بلکہ ھم کہتے ہے اللہ کو اسکا بھی علم ہوتا ہے لیکن ظاھر بعد میں ہوتا ہے ] لیکن فریق اس لفظ ” بداء ” کے معنی کو اس طرح توڈ مروڈ کر پیش کرتے ہے کہ پڑھنے والوں کو یہ ثاتر دے کہ شیعہ کے مطابق اللہ کو اس چیز کا پہلے علم نہیں تھا اسلے اس شئی کو بدل ڈالا – معاذ اللہ جبکہ اگر انکی کتب میں دیکھا جائے تو یہ لفظ “بداء” انکے یہاں بھی اللہ کے لے ودر ہوا ہے۔ 

‎
احسان الھٰی ظہیر جس نے شیعہ امامیہ کے خلاف بہت کتب لکھی ان میں ایک کتاب ” الشیعہ و السنہ ” ہے اس میں وہ بداء کے باب میں یوں لکھتا ہے : 
مسئلہ بداء 

‎شیعہ مذھب کا یہ عقیدہ بھی ابن سبا یہودی کی ایجاد و اختراع ہے ۔ اس عقیدے کا مفہوم ہے کہ معاذاللہ اللہ تعالے کو بعض واقعات کے ہونے کا علم نہیں ہوتا تاوقتیکہ وہ وقوع پذیر نہ ہو جائیں 




حوالہ : الشیعہ و السنہ – احسان الٰھی ظہیر // صفحہ ۶۶ // طبع الکتاب انٹرنیشنل دھلی 

‎اب ھم اھل سنت کی سب سے صحیح کتاب بعد از قرآن صحیح بخاری کی طرف نظر ڈالتے ہے ، وہاں ایک روایت رود ہوئی ہے جو اس طرح ہے : 

ابوھریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی علیہ وآلہ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے : بنی اسرائیل میں تین شخص تھے ایک کوڑھی ، ایک گنجا اور ایک اندھا ، اللہ نے ان تینوں کو آزمانا چھا ۔۔۔۔۔


نوٹ : اللہ کے ارداے کے لے لفظ ” بدا الله ” استعمال ہوا ہے 

‎حوالہ : صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری ( ترجمہ مولانا وحید الزمان حیدرآبادی ) // جلد ۲ // ۳۵۹ // رقم ۶۸۱ // طبع اعتقادات دھلی 


 
یہ حدیث بیت الافکاریہ کے نسخہ پر بھی موجود ہے : 

 ‎حوالہ : صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری ( تحقیق حسان بن عبدالمنان ) // صفحہ ۳۹۲ // کتاب الاحادیث الانبیاء //رقم ۳۴۶۴ // طبع بیت الافکاریہ اردن 


لہذا ثابت ہوا کہ کس طرح ھمارے فریق جھوٹ و تدلیس کا سہارا لے شیعہ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں 

تحریر : ڈاکٹر آصف حسین ۱۰ ستمبر ۲۰۱۷ء