irafidhi

※ولایت فقیہ اور کشمیر میں اسکے بارے میں شدت پسندی※

                 الرسالة عن الولاية الفقية لشباب كشمير                         
                                    ﷽      
 

کچھ مہینے قبل نجف کے ایک طالب علم کا مسیج آیا جو غیر کشمیری ہے انہوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کیا وجہ ہے کہ کشمیری عوام خصوصاً نوجوان ولایت فقیہ کے مسلے میں افراط کے شکار ہے ؟

 

تو میں نے اس دن انکو یہ کہہ کر انکی بات کی نفی کی کہ کشمیر میں سید علی خامنه اي حفظہ اللہ کے مقلدین کثیر تعداد میں موجود ہے اسلے آپکو ایسا لگ رہا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر جب میں نے کشمیر میں شیعہ نوجوانوں کے حالات پر نظر ڈالی تو میں نے یہی پایا کہ واقعی کشمیر میں یہ مسئلہ اب شدت پکڑ رہا ہے۔ اب کل کچھ حضرات نے فیسبک پر کچھ پوسٹز لگائی تھی جنکا متن کچھ یوں تھا ” مرگ بر ضد ولایت فقیہ [جسکا مطلب ہے ولایت فقیہ کے مخالف کی موت ہو] ” ،” مرگ بر MI6 ایجنٹز ” وغیرھم تو میں نے ارادہ کیا کہ اللہ کے فضل سے ولایت فقیہ کے علاقائی حدود کے بارے میں پر اپنا نظریہ پیش کروں تاکہ اس مسلے میں ہر کسی کے لے حق واضح ہو کیونکہ کشمیر میں بہت سارے نوجوان آج بھی یہی مانتے ہے کہ رھبر پوری دنیا کے ولی فقیہ ہیں جبکہ اکثریت کو علم بھی نہیں ہے کہ اس سے کیا مراد ہے !

 

ولایت فقیہ دو الفاظ ” ولایت ” اور ” فقیہ ” کا مرکب ہے

 

ولایت لفظ عربی میں ” الوِلاَيَةُ ” ہے جسکے بہت معنی ہے : •رشتہ ، قربت ،•زیر اقتدار علاقہ ، حکومت و فرماں روائی بالادستی ، اقتدار و ملکی انتظام ، وہ ملک جس پر کسی حاکم کا اقتداء کو [ القاموس الوحید – مولانا وحید الزمان قاسمی // جلد ۲ // صفحہ ۱۹۰۰// طبع الھند ]

 

اور لفظ فقیہ عربی میں ” الفَقِيْهُ ” ہے جسکا معنی صاحب فہم عالم ، اصول شریعت اور احکام شریعت کا عالم یا ماہر ، قرآن پاک پڑھے اور پڑھانے سکھانے والا قانون دان [ القاموس الوحید – مولانا وحید الزمان قاسمی // جلد ۲ // صفحہ ۱۲۴۸ // طبع الھند ]

 

لہذا یہاں ولایت فقیہ سے مراد “احکام شریعہ کے عالم کی حکومت ” یا سادہ الفاظ میں “ایک فقیہ کی حکومت” اور یہی اس کے اصطلاحی معنی بھی ہے !

 

ولایت فقیہ میں فقیہ کے لے اولین شرط یہ ہے کہ اسکے پاس حکومت ہو اور آپ سیاسی علوم کے بارے میں کوئی بھی بنیادی کتاب اٹھا لیں وہاں یہی بات لکھی ہوگی کہ حکومت کے اصولاً دو کام ہوتے ہیں :

 

+قانون سازی [Legislative ] – اس سے مراد قانون و ملکی احکامات بنانا ہے [ یہ عمل ہر فقیہ کرتا ہے کیونکہ وہ مختلف مسائل کے لے قرآن و سنت سے استنباط کرکے کوئی رائے قائم کرتا ہے مثلاً ہر کوئی مرجع اس بات کو اپنی کتب میں لکھتا ہے کہ ایک چور کے لے فلان سزاء ہے وغیرھم ]

 

+قانون نافذی [ Executive ] – اس سے مراد اوپر والے احکامات کو نافذ کرنا۔ دراصل یہی وہ واحد وجہ ہے جسکے ذریعے سے ایک ولی فقیہ ایک عام فقیہ سے الگ ہوتا ہے کیونکہ اب حکومت آنے کی وجہ سے وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے دیئے گئے احکامات کو نافذ کر سکھے مثلاً سید سیستانی حفظہ اللہ بھی چور کے لے فلان سزاء لکھتا ہے لیکن اسکو عمل میں لانے کی قدرت نہیں رکھتا جبکہ سید علی خامنه اي حفظہ اللہ اس پر قادر ہے کیونکہ انکے پاس حکومتی نظام ہے۔

 

لہذا جو بات یہاں صاف ہے وہ یہی ہے کہ ایک ولی فقیہ ایک عام فقیہ سے صرف اس مسلے پر فوقیت رکھتا ہے کہ وہ احکام شریعہ کو نافذ کرنے کی صلاحیت/قدرت رکھتا ہے۔

 

 

تو کشمیر کے ان باشعور جوانوں سے کچھ سوالات ہے جو ولایت فقیہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہے کہ رھبر کی ولایت پوری دنیا میں ہے :

 

– اگر آپکے مطابق رھبر کی ولایت کشمیر میں بھی ہے تو جس وجہ سے ایک فقیہ ولی فقیہ کہلاتا ہے وہ اسکا احکامات نافذ کرنے کی طاقت ہوتا ہے تو ھمیں بتا دیں کہ رھبر نے کتنے چوروں کو یہاں سزاء دی ہے اور کتنے اسلامی احکامات یہاں نافذ گئے ہے ؟ یا اگر آپ خود کو رھبر کے سپائی کہلاتے ہو تو کتنے چوروں کو آج تک آپکے ذریعے سے یہاں اسلامی قوانین کے مطابق سزاء ملی ہے یا آپ کے پاس بھی یہ طاقت نہیں ؟

 

– کشمیر میں ولایت فقیہ کے غلو پسند حامی خود کہتے ہے کہ ولی فقیہ دراصل امام زمانہ عج کا نائب/ نمائندہ ہوتا ہے مثال یہ دیتے ہے کہ جس طرح امام علی علیہ السلام کے زمانے میں امام علی علیہ السلام نے مختلف علاقوں کے لے مختلف نمائندے مقرر کئے تھے مثلاً مصر کے لے مالک الاشتر تو سوال ہے کہ کیا جناب مالک الاشتر کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے علاقے سے باہر سرزمین یمن میں اپنی حکومت کا اعلان کرتا یا اس زمانے میں چین [ جہاں مسلمان نہیں تھے ] وہاں اپنی ولایت کا اعلان کرتا !

 

– مراجع کے درمیان اختلاف اس مسلہ پر تھا کہ ولی فقیہ کے authoritive power کی حد کیا ہے ۔۔۔ علاقائی حدود کے بارے میں میری نظر میں کسی نے ایسا کوئی دعوہ نہیں کیا ہے [الا ماشاء اللہ] کہ ولی فقیہ کی ولایت پوری دنیا میں ہوتی ہے بلکہ اسکے برعکس آیت اللہ ناصر مکارم شیرازي حفظہ اللہ نے صریح طور پر کہا ہے کہ رھبر ولی فقیہ صرف ایرانی عوام کے لے ہیں اور عرآق کے ایک جید عالم دین آیت اللہ شیخ کاظم حائری کا فتواہ بھی ملتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جب سید علی خامنائ حفظہ اللہ ایران کے ولی فقیہ مقرر کیے کئے تو میں نے انکو خط کے ذریعے پوچھا کہ آیا آپ عرآق کے بھی ولی فقیہ ہو تو انہوں نے ” نا ” میں جواب دیا !

 

– یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ولی فقیہ کا انتخاب ایران میں مجلس خبرگان کرتی ہے جنکو عوام ایک الیکشن کے ذریعے چنتی ہے لہذا عام لفظوں میں ولی فقیہ کو ایرانی عوام indirectly منتخب کرتی ہے تو کیا یہ عقلی طور پر صحیح ہے کہ ایک حاکم (ولی) کو ایک ملک یا علاقے کی عوام منتخب کرے اور باقی تمام دنیا میں انکی حکومت فرض ہوجائے !

 

 

نوٹ : جہاں بھی میں نے اوپر ولایت کا لفظ استعمال کیا ہے اس سے مراد سیاسی ولایت ہے ورنا دینی امور میں کچھ حد تک ولایت اصولین کے یہاں مسلم ہے

 

اس بات ہر علماء اصولین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ ایک فقیہ کے پاس مختلف دینی امور میں ولایت ہوتی ہے کیونکہ خود امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک لمبی حدیث میں ہے : ” وآن العلماء وراثة الانبياء – علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہے [ اصول الکافی لکلینی ۱/۳۴ ، امالی للصدوق ۱۱۶/ رقم ۹ و صححة شيخ آصف محسني في المعجم الاحاديث المعتبرة // رقم ۱:۱۸ ] مثلاً خمس میں امام زمانہ عج کا حق کہاں خرچ ہوگا اس مسلے میں موجودہ فقہاء کا غالباً اجماع ہے کہ ایک فقیہ کو ولایت حاصل ہےوغیرھم ۔ اور اتفاق کی بات ہے کہ یہ ولایت بھی کسی ایک خاص فرد کے لے نہیں ہے بلکہ تمام مراجع کرام کو یہ ولایت حاصل ہے۔

 

لیکن کیا ایک فقیہ کو امام کی جگہ حکومت کرنے کا حق ہے اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے سید روح اللہ خمینی (علیہ الرحمہ ) کے بقول ایک فقیہ کے لے ولایت کا یہ جزء بھی ثابت ہے جبکہ سید ابوالقاسم الخوئی ( علیہ الرحمہ ) کا موقف اسکے خلاف تھا۔ [ یہ ایک الگ بحث ہے جس پر طوالت کے سبب ابھی کچھ لکھنا ممکن نہیں اور اسکا اس موضوع کے ساتھ تعلق بھی نہیں جبکہ اس مسلے میں بھی یہاں کشمیر میں کافی غلو ہو رہا ہے مثال کے طور پر ھمارے ایک قریبی ثقہ و معتبر دوست نے ھمیں خبر دی کہ انکے امام جمعہ نے ایک بار خطبہ میں یہ تک کہا ہے ” ولی فقیہ کو ھم پر اسی طرح نظر رہتی ہے جس طرح ایک CCTV کیمرے کے ذریعے انسانوں پر چوپیس گھنٹے نظر رکھی جاتی ہے ”

 

 

عرض ہے کہ یہ امور ولایت تکوینی میں آتے ہیں جس کا دعوی انکے لے آج تک کسی نے بھی نہیں کیا ہے یہاں تک کہ خود امام خمینی علیہ الرحمہ و امام خامنه اي حفظہ اللہ نے اسکا دعوہ نہیں کیا بلکہ ھمارے کچھ شیعہ امامی محققین نے ائمہ علیھم السلام کے لے اس قسم کی ولایت تکوینی تک کا انکار کیا ہے مثلاً سید محمد حسین فضل اللہ وغیرھم ، ایک غیر معصوم کی بات ہی نہیں ہے۔ معلوم نہیں یہاں کے خطیب کہاں سے ایسی عجیب و غریب باتیں لے آتے ہیں ]

 

نوٹ : اکثر ولایت فقیہ کے مخالفین کہتے ہیں کہ یہ نظریہ امام خمینی نے سب سے پہلے دیا اور ان سے پہلے کسی بھی شیعہ مرجع یا عالم نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ ان لوگوں کی بات بھی صحیح نہیں بلکہ مسئلہ ولایت فقیہ غیبت کبری کے بعد فقہائے شیعہ کے درمیان ایک اہم موضوع رہا ہے۔

 

شیخ مفید اپنی مشہور کتاب المقنعہ میں لکھتے ہیں؛

 

فأما إقامة الحدود فهو إلى سلطان الإسلام المنصوب من قبل الله تعالى و هم أئمة الهدى من آل محمد ع و من نصبوه لذلك من الأمراء و الحكام و قد فوضوا النظر فيه إلى فقهاء شيعتهم مع الإمكان

 

“حدود کو قائم کرنا اسلامی حاکم سے مربوط ہے جو اللہ کی طرف سے منصوب و منصوص ہو، اور یہ آل محمد میں سے ہمارے آئمہ ھدی (علیھم السلام) ہیں، یا وہ ہیں جن کو (ہمارے آئمہ) بطور امیر و حاکم نصب کریں۔ یہ اختیار (غیبت کبری میں) شیعہ فقہاء کو تفویض کیا جا چکا ہے بشرطیکہ یہ ذمّہ داری پوری کرنا فقہاء کے لئے ممکن ہو۔[المقنعہ: صفحہ ۸۱۰]

 

شیخ مفید ایک اور جگہ وصیّت کے باب میں فرماتے ہیں؛

 

و إذا عدم السلطان العادل فيما ذكرناه من هذه الأبواب كان لفقهاء أهل الحق العدول من ذوي الرأي و العقل و الفضل أن يتولوا ما تولاه السلطان فإن لم يتمكنوا من ذلك فلا تبعة عليهم فيه و بالله التوفيق

 

“جب سلطان عادل (امام معصوم) موجود نہ ہو تو جیسا کہ ہم نے ان ابواب میں ذکر کیا، سلطان عادل (امام معصوم) کے امور اور ان کی ذمّہ داریاں وہ اہل حق اور عادل فقہاء اٹھائیں گے جو عاقل و فاضل ہوں۔ اور جب ان (فقہاء) کے لئے یہ مناصب اٹھانا ممکن نہ ہو تو ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔” [المقنعہ: صفحہ ۶۷۶]

 

 

آج تک جن افراد سے بھی جو ولایت فقیہ میں علاقائی وسعت میں غلو کا حامی ہے اس مسلے کے بارے میں سوال کیا ہے وہ اس میں کنفوژن [ confusion ] کے شکار ہے کیونکہ ایک محترم بھائی سے کچھ دن پہلے بات ہوئی تو انہوں نے کہا رھبر کی ولایت [سیاسی] امور میں ایران تک محدود ہے اور شریعی ولایت دنیا کے تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔

 

تو عرض ہے اس بات سے تو رھبر کے علاوہ تمام مراجع کرام کی مرجعیت ہی ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ آپ کہ رہے ہو دینی امور میں دنیا کے تمام لوگوں پر فرض ہے کہ رھبر کی دینی امور میں اطاعت کریں تو باقی مرجع کا کیا کام رہے گا جب ایک واحد شخصیت دینی امور میں واجب اطاعت ہوگی ؟؟؟

 

دراصل ایک فقیہ کے حاکم ہونے کے بعد تین احتمالات پیدا ہوتے ہیں :

 

* فقیہ مذھبی و سیاسی امور میں دنیا میں صرف اپنے مقلدین پر ولایت کا حق رکھتا ہے

* فقیہ مذھبی امور میں اپنے مقلدین اور سیاسی امور میں پورے دنیا میں ولایت کا حق رکھتا ہے

* فقیہ مذھبی امور میں اپنے مقلدین اور سیاسی امور میں اس خطے تک ولایت رکھتا ہے جن لوگوں نے انکو چنا ہوگا

 

 

پہلا احتمال محال ہے کیونکہ فقیہ دینی امور میں اپنے مقلدین پر حجت ہے اس میں اختلاف نہیں لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک فقیہ اپنے فتاوی و احکام کو دنیا میں اپنے تمام مقلدین پر نافذ کر سکھے کیونکہ اسکے لے اسکے پاس پوری دنیا کی حکومت ہونی چاھے یا اسکے مقلد صرف اس جگہ ہو جہاں اسکی حکومت ہو ، یہ دونوں ناممکن ہی ہے۔

 

دوسرا احتمال بھی ایسا ہی ہے اسکے لے بھی ولی فقیہ کو پوری دنیا کی حکومت ہونا لازم ہے تب ہی وہ احکامات کو نافذ کر سکھتا ہے جو ممکن نہیں کیونکہ امریکہ میں رہنے والا ایک عام انسان جو چوری کرتا ہے اسکو سزا دینے کی طاقت ایران میں مقیم ولی فقیہ کو نہیں بلکہ امریکی حکومت اسکو اپنے قوانین کے تحت سزاء دے سکھتی ہے۔

 

تیسرا احتمال ممکن ہے اور عقل کے موافق ہے کیونکہ ایک فقیہ دینی امور میں دنیا کے تمام اپنے مقلدین پر حجت ہے لیکن اسلامی احکام وہ صرف وہاں نافذ کر سکھتا ہے جہاں اسکی حکومت [ ولایت سیاسی ] قائم ہے ، یہ حقیقت کے قریب ہے اور ایسا ہی ہے جب ایران میں کوئی جرم کرتا ہے تو وہاں ولی فقیہ کو حق ہے کہ اسکو سزاء دے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے ۔

 

لہذا یہ گمان کہ ولی فقیہ کی ولایت پوری دنیا تک ہوتی ہے ایک عبث خیال ہے جو حقیقت سے بعید ہے ، میں خود مانتا ہوں کہ یہ ایک اچھا خیال ہے لیکن ایک فقیہ کی حکومت پوری دنیا میں ہو اسکے لوازمات پورے نہیں ہو رہے ہے بلکہ یہ ایک خواب کے مانند ہے جو تب ہی پورا ہوسکھتا ہے جب دنیا میں شیعہ اثناعشریوں کی آبادی اکثریت میں آجائے گی ، یہ ایسا ہی کہ کوئی گمان کرے کہ دنیا کی ساری دولت اسکے پاس ہو ۔۔۔ خیال اچھا ہے لیکن محال ہے۔شیخ ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ کا اس مسلے پر سب سے بہترین موقف ہے جس میں نہ غلو ہے اور نہ تقصیر بلکہ حق مبنی ہے وہ کہتے ہیں :

 

” ولی فقیہ کی حد اس علاقے تک ہوتا ہے جہاں کی عوام نے انکو منتخب کیا ہوتا ہے اور وہاں کے لوگوں اور مراجع کا اسکی مخالفت کرنا صحیح نہیں لیکن اگر باقی دنیا کے لوگ چاھے تو بحثیت ایک سربراہ انکی پیروی کر سکھتے ہے تاکہ وہ منعظم ہوجائیں [ اور اس سے فائدہ مند ہو ] لیکن انکو ایسا کرنا ضروری بھی نہیں ” اوکما قال [ انکی اپنی سائٹ پر ایک سال قبل ایک استفتاء میں انہوں نے ایسا لکھا تھا ]

لیکن انکی فارسی ویب سائٹ پر ابھی ایک سوال کا جواب بھی اسی طرح ہے :

 

 

پرسش : ولایت فقیه تحقیقی است یا تقلیدی؟

پاسخ : برای کسانی که مجتهد باشند تحقیقی است و برای کسانی که مجتهد نیستند تقلیدی است.

 

پرسش : آیا شخصی در کشور دیگر که در آن کشور قوانین اسلامی رعایت نمی شود مثلا ترکیه زندگی میکند و به ولایت مطلقه فقیه اعتقاد دارد 1-آیا از قوانین کشور ترکیه باید تبعیت بکند یا ولایت فقیه؟ 2- آیا دایره ولایت فقیه مختص به کشور ایران است؟

پاسخ : با توجه به اینکه شخص ولی فقیه به وسیله ی خبرگان انتخاب شده و خبرگان به وسیله ی مردم ایران تعیین شده اند، بنابراین ولایت فقیه مربوط به کشور ایران می شود ولی فتوای مرجع تقلید برای همه در هر جا معتبر است.

 

 

ترجمہ:

سوال:کیا ولایت فقیہ تحقیقی مسئلہ ہے یا تقلیدی؟

جواب:جو مجتھد ہے اس کےلئے یہ تحقیقی ہے اور جو مجتھد نہیں ہے اس کےلئے یہ تقلیدی مسئلہ ہے۔

 

 

 

سوال : کیا ایک ایسا شخص کہ جو کسی ایسے ملک میں زندگی بسر کرتا ہو کہ جس میں اسلامی قوانین کی رعایت نہیں کی جاتی مثلا ترکی میں زندگی بسر کرتا ہو اور ولایت فقیہ مطلقہ پر ایمان بھی رکھتا ہو تو کیا وہ ترکی کے قوانین کی اتباع کرے یا ولایت فقیہ کی ؟ اور کیا ولایت فقیہ کا دائرہ مملکت ایران کیساتھ خاص ہے ؟

جواب : اس طرف متوجہ رہتے ہوئے کہ جو شخص ولی فقیہ ہو وہ مجلس خبرگان کے توسط سے منتخب کیا جاتا ہے اور مجلس خبرگان کا انتخاب ایرانی عوام کے توسط سے ہوتا ہے اس بنا پر ولایت فقیہ ایران کے ساتھ مربوط ہے لیکن اپنے اپنے مرجع تقلید کا فتوی سب کیلئے ہر جگہ معتبر ھے۔

 

 

‏http://makarem.ir/main.aspx?typeinfo=21&lid=0&mid=14920

 لبنان میں بھی حزب اللہ بظاھر اسی پر عمل کرتے ہوئے منعظم ہوگئی اور انکی تحریک کے ثمرات ھمارے سامنے ہے لیکن انہوں نے بھی کبھی اس مسلے میں اتنی شدت پسندی نہیں کی جس طرح کشمیری حلقے میں پائی جاتی ہے جہاں پر اس نظریہ کے ساتھ اختلاف کرنے والے کو ” مرگ بر ضد ولایت فقیہ ، مرگ بر ۔۔۔۔ ” کہا جاتا ہے۔ پھر خوارج اور آپ میں کیا فرق ہے جو محض چھوٹے چھوٹے مسائل پر عام مسلمانوں کی تکفیر کرتے تھے جبکہ یہ اجتہادی دور ہے لہذا ہر کوئی اپنے اجتہاد یا اپنے مرجع کی تحقیق کے مطابق عمل یا کوئی رائے رکھتا ہے لہذا محض اجتہادی اختلاف کی وجہ سے بھی کسی کو کافر یا دائرہ اسلام سے خارج کرنا بہت بڑی غلطی ہے جسکو خود سید علی خامنه اي حفظہ اللہ مسترد کرتے ہیں ، چناچہ وہ اپنی کتاب “استفتات کے جوابات” میں یوں لکھتے ہے :

 

سوال (۶۲) : کیا اس شخص کو حقیقی مسلمان سمجھا جائے گا جو ولایت فقیہ کا معتقد نہ ہو ؟

 

جواب : غیبت امام زمانہ عج کے عہد میں اجتہاد یا تقلید کے بنا پر ولایت فقیہ کا اعتقاد نہ رکھنا ارتد یا دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا باعث نہیں ہے۔

 

حوالہ : توضیع المسائل ( المعروف استفتاء اور انکے جوابات – سید علی خامنه اي ) – اردو // جلد ۱ // باب ولایت فقیہ اور حکم حاکم // صفحہ ۳۰ // طبع سرینگر

 

 

لہذا یہ کیسا انصاف ہے کہ جو ولایت فقیہ کے بارے میں ھماری فکر سے اختلاف رکھتا ہے اسکے لے “مرگ بر – مرگ بر ” کا نعرہ لگایا جائے جبکہ ولایت فقیہ اجتہاد کے بنا پر ایک نظریہ ہے اس سے بہت سارے جید علماء نے اختلاف بھی کیا ہے مثلاً لبنان کے سید محمد فضل اللہ ولایت شوریٰ نظریہ کے حامی تھے [ دیکھے انکی کتاب فقہ زندگی ] ، سید محمد حسین شیرازی بھی اسی بات کے حامل تھے [ دیکھے انکی کتاب The Islamic Government ] ، شھید باقر الصدر خلافت انسانی کا نظریہ رکھتے تھے ، کچھ محققین ولایت صالحین کے قائل ہے جن میں ھمارے ایک پاکستانی استاد بھی ہے بلکہ کچھ مراجع کے نظریہ کے مطابق ایک فقیہ کے لے حکومت میں حصہ لینا جائز ہی نہیں [ یہ رائے آیت اللہ شیخ اسحاق فیاض اور انکے استاد کی ہے ]

 

اس بات سے قطعی نظر کہ ان تمام نظریات میں سے بہترین کونسا نظریہ ہے ،کیا یہ درست ہے کہ ھم مخذ کسی کے لے اسلے ” مرگ بر۔۔۔۔ ” کا نعرہ دیں جبکہ حقیقت میں وہ اپنے اجتہاد یا اسکا مرجع تقلید اس بات کا قائل ہے جو ھماری نظریہ کے خلاف ہو ۔۔۔ ذرا عقل سے کام لیں [ اپنے آپ کو انکی جگہ رکھیں پھر بات سمجھنے میں آسانی ہوگی ]

 

 

ایک اور بات جو اس حوالے سے ضروری ہے کہ جب ھم ان احباب سے اس مسلے پر بحث کرتے ہے جو اس بات کے قائل ہوتے ہے کہ رھبر کی ولایت پوری دنیا میں ہے تو وہ یہ اعتراض کرتے ہے کہ ” جس طرح معصومین علیھم السلام کی سیاسی ولایت صرف ایک خاص حصے تک محدود ہونے کے باوجود بھی وہ پوری کائنات کے ولی تھے تو کیا ولی فقیہ کے لے ممکن نہیں ”

 

اسکا جواب ہے کہ یہ سوال ہی غلط بلکہ قیاس آرائی پر مبنی ہے جسکو معصومین علیھم السلام نے حرام قرار دیا ہے بلکہ یہ گمراہی کا سبب ہے [الکافی لکلینی ۱/۵۷ و صحيحة شيخ آصف المحسني في المعجم الاحاديث المعتبرة رقم ۲/۵۵ ] اسکی وجہ یوں ہے :

 

~ معصومین کی ولایت اور ولایت فقیہ کا مبنا [ Source ] الگ الگ ہے کیونکہ پہلا منصوص من اللہ ہوتا ہے اور دوسرا منصوص من الناس ہوتا ہے لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسرے کو پہلے پر قیاس کیا جائے۔

 

~ معصومین کی ولایت ایسی ہے کہ اگر انکو حکومت نہ بھی ملے جیسا کہ اکثر معصومین علیھم السلام کے ساتھ ہوا سوائے امام علی و امام حسن علیھما السلام کے تب بھی انکی ولایت قائم ہوتی ہے جبکہ ولی فقیہ کی ولایت [سیاسی ] تب ہی شروع ہوجاتی ہے جب اسکے ہاتھ میں حکومت آجاتی ہے کیونکہ حکومت کے بغیر ایک فقیہ کی حیثیت ایک عام مرجع کی سی ہے جیسا کہ باقی مرجع کرام ہے مثلاً سید علی سیستانی حفظہ اللہ وغیرھم جو احکامات دیتے ہے لیکن ان کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔

 

لہذا ولایت فقیہ کو ولایت معصومین پر قیاس کرنا بہت بڑی علمی خطا ہے۔

 

نوٹ : ھم نے اوپر فریقین کی دلیل کو یہ کہ کر رد کیا کہ وہ قیاس پر مبنی تھی تو کچھ احباب نے کہا کہ یہاں وہ قیاس مراد نہیں جو شریعت میں ممنوع ہے بکلہ ھم یہاں تسلسل کے قائل ہے جس کی نفی شریعت میں نہیں ہے

 

اب اگر مخالفین کی اس بات کو قبول بھی کیا جائے تو پھر بھی اس سے استدلال ممکن نہیں کیونکہ جو ایسا سوال کرتے ہے وہ لوگوں کو دھونکہ دیتے ہوئے دو اصطلاحات کو خلط ملط کرکے کنفوژ کرتے ہے :

 

* ایک “فقیہ کی ولایت ” جس سے مراد وہ تمام power جو ایک عام فقیہ کو ائمہ معصوم کی طرف سے عطا ہے مثلاً ایک فقیہ کی طرف شرعی امور میں رجوع کرنا وغیرھم ،

* دوسری اصطلاح “ولایت فقیہ ” عموماً اس سے مراد ایک فقیہ کی حکموت ہوتا ہے یا جس کے ذریعے سے سیاسی ولایت ایک علاقے میں ظاھر ہوجاتی ہے

 

امام علی علیہ السلام اور امام حسن علیھما السلام کے بغیر چتنے بھی ائمہ گزرے ہیں کسی بھی امام نے آج تک سیاسی ولایت ہاتھ میں نہیں لی [ ہاں اگر مل جاتی تو بہتر تھا ] لیکن نہ ملنے کی صورت میں بھی انکی شرعی و الٰھی ولایت برقرار تھی [ لہذا یہاں سیاسی ولایت اور شرعیی ولایت میں فرق کرنے کی ضرورت ہے]

 

امام علی علیہ السلام کی الٰھی و شرعی ولایت اگرچہ دنیاوی قیود ، قومیت یا لسانیت کے قید سے پاک تھی لیکن سیاسی ولایت وہ تب ہی استعمال کر سکتے تھے جب لوگ ان پر اعتماد یا منتخب کرتے جیسا کہ ہوا بھی پہلے تین خلفاء کے دور میں انکے پاس یہ ولایت تھی لیکن ظاھر تب ہی کر پائے جب انکو لوگوں کی اکثریت نے منتخب کیا ۔۔۔۔ اور اس زمانے میں حجاذ کے علاوہ باقی علاقوں مثلاً چین ، مغرب نے انکو منتخب نہیں کیا لہذا امام علی علیہ السلام نے بھی کبھی انکے اوپر اپنی سیاسی ولایت کا دعوہ نہیں کیا [ اھل شام ، اھل جمل اور خوارج کے خلاف خروج اسلے کیا کیونکہ وہ باغی تھے ] لہذا جب ایک معصوم کی سیاسی ولایت ایک علاقے میں تب ہی ظاھر ہو سکھتی ہے جب وہاں کے لوگ اسکو منتخب کریں گے تو ایک فقیہ کی سیاسی ولایت [ ولایت فقیہ ] کیسے ایران سے باھر ظاھر ہو سکھتی ہے جب وہاں کے لوگوں نے اسکو منتخب نہیں کیا ہوگا

 

لہذا جس طرح معصومین علیھم السلام کو اللہ کی طرف سے پوری دنیا کی حکومت کی قدرت حاصل تھی تو فقہاء کے لے بھی وہی ہے لیکن کسی چیز پر قادر ہونے اور حقیقت میں فرق ہے کیونکہ قدرت امام علی علیہ السلام میں بھی تھی کہ وہ پہلے تین خلفاء کے زمانے میں حکومت کر سکھتا تھا لیکن کیا اصل میں حکومت ۔۔۔ یہ اصل مسئلہ ہے !

 

 

لہذا ھمارے جذباتی بھائیوں کو probablity اور Reality میں فرق کرنا سکھنا ہوگا

 

[واضح رہے کہ معصوم و فقیہ کی شرعی ولایت کسی ملک کی پابند نہیں لیکن سیاسی ولایت تب ہی ظاھر ہوگی جب وہاں کے لوگ انکو منتخب کریں گے ]

 

کچھ حضرات یہ بھی دعوہ کرتے ہے کہ ہر کسی دور میں امام زمانہ عج کا ایک خاص نائب ہوتا ہے جس طرح امام زمانہ عج کے غیبت الصغرٰی میں چار نواب تھے تو عرض ہے کہ امام زمانہ عج کی طرف سے نیابت دو قسم کی ثابت ہے :

 

* ایک نیابت خاصہ ہے جس میں امام نے اپنے چار خاص صحابہ کو نائب مقرار کیا اور انکا حکم اسی طرح قطعی تھا جس طرح امام کا فرمان ہوتا ہے جو دنیا کے ہر شئ پر لاگو ہوتا ہے

* دوسرے نیابت عامہ ہے جو تمام فقہاء کے لے ثابت ہے ۔جس کی اصل اس مہشور توقیع میں پائی جاتی ہے جسکو امام زمانہ عج نے اپنے دوسرے نائب محمد بن عثمان الامری کے ذریعے سے ھم تک پہنچایا جو اس طرح ہے :

 

اَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوْا فِيْهَا اِلٰى رُوَاةِ حَدِيْثِنَا فاِنَّهُمْ حُجَّتِىْ عَلَيْكُمْ وَ اَنا حُجَّةُ اللهِ

 

نئے پیش آنے مسائل کے لے ھماری احادیث کے رواہ کی طرف رجوع کیا جائے کیونکہ وہ ھماری طرف سے آپ پر حجت ہے اور ھم اللہ کی طرف سے [ بخار الانوار للمجلسی // جلد ۵۳ // صفحہ ۱۸۰ نقل عن احتجاج طبرسی ]

 

لہذا غیبت کبرٰی میں نیابت کسی خاص فرد کے لے نہیں بلکہ تمام رواہ احادیث کے لے ہے [ جو آجکے زمانے میں فقہاء یا مراجع کہلاتے ہے ]

 

اسی طرح امام زمانہ عج کی آخری توقیع مبارک بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے جسکو آخری نائب خاص نے اپنی موت سے چھے دن قبل ظاھر کیا تھا، اس میں یوں لکھا ہوا ہے :

 

 

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَا عَلِىَّ بْنَ مُحَمَّدٍ السَّمرىّ، اَعْظَمَ اللهُ اَجْرَ اِخْوَانِكَ فِيْكَ فَاِنَّكَ مَيِّتٌ مَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَ سِتَّةِ اَيَّامٍ، فَاجْمَعْ اَمْرَكَ وَلاَ تُوصِ اِلىٰ اَحَدٍ فَيَقُوْمَ مَقَامَكَ بَعْدَ وَفَاتِكَ فَقَدْ وَقَعَتِ الْغَيْبَةُ التَّامَّةُ فَلاَ ظُهُوْرَ اِلاَّ بَعْدَ اِذْنِ اللهِ تَعَالىٰ ذِكْرُهُ وَ ذَالِكَ بَعْدَ طُوْلِ الْاَمَدِ وَ قَسْوَةِ الْقُلُوْبِ وَامْتِلاَءِ الْاَرْضِ جَوْراً وَ سَيَأتِى شِيْعَتِىْ مَنْ يَدَّعِى الْمُشَاهَدَةَ اَلاَ فَمَنِ ادَّعىَ الْمُشَاهَدَةَ قَبْلَ خُرُوْجِ السُّفْيَانِىّ وَ الصَّيْحَةِ فَهُوَ كَذَّابٌ مُفْتَرٌ وَ لاَ حَوْلَ وَ لاَ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللهِ الْعَلِىِّ الْعَظِيْمِ-

 

 

اے علی بن محمد سامری ! اللہ آپکے بھائیوں کا آپکے بارے میں [اپکی موت ] عظیم اجر عطا فرمائیں ! آپ پر ۶ دنوں میں موت واقع ہوجائے گی لہذا آپ اپنا کام مکمل کریں اور کسی کو اپنے بعد نمائند/ نائب مقرر نہ کریں کیونکہ خاص نوابوں کا سلسلہ اب اختتام پزیر ہوگیا ہے اور غیبت کبرٰی آپکی وفات کے بعد شروع ہوجائے گی لہذا اب میرا ظہور بہت فاصلے کے بعد اللہ کے حکم سے ہی ہوگا جب لوگوں کے دل سخت ہونگے اور ایسے لوگ بھی ھمارے شیعوں میں سے نکلیں گے جو یہ دعوہ کریں گے کہ انہوں نے مجھے دیکھا ہے [ علامہ مجلسی ان الفاظ کی توضیع اس طرح کرتا ہے کہ اس سے مراد جو میرے بعد اپنی نیابت کا دعوہ کرے ] جو کوئی بھی ایسا دعوہ سفیانی اور آسمانی آواز سے پہلے کرے گا وہ جھوٹا اور دھونکے باز [دجال ] ہوگا ،کوئئ قوت و طاقت والا نہیں سوائے اس اللہ کے جو بہت بزرگ ہے

 

 

[ کتاب الغیبہ للطوسی //صفحہ ۵۹۳ ، کمال الدین و تمام النعمہ للصدوق // جلد ۲ // ۶۱۵ ، الاحتجاج للطبرسی // جلد ۲ // صفحہ ۸۷۴ ، وغیرھم اس حدیث پر تمام شیعہ امامیوں کا اتفاق ہے کہ یہ معتبر ہے ]

 

 

لہذا جو کچھ امام زمانہ عج سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ زمانہ غیبت کبرٰی میں جو کوئی امام کا خاص / واحد نائب ہونے کا دعوہ کرے وہ کذاب ہے کیونکہ اس زمانے میں نیابت عمومی ہے جو ہر فقیہ کے لے ثابت ہے اور یہ نیابت دینی و سیاسی دونوں میں ہے ۔۔۔۔ جس طرح امام علی علیہ السلام کی سیاسی ولایت تھی اسی طرح فقہاء کے لے بھی ثابت ہے مطلب جہاں لوگ انکو منتخب کریں یہ وہاں اپنی سیاسی ولایت ظاھر کر سکھتا ہے اسی طرح ہر فقیہ بھی ولی فقیہ بن سکھتا ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ لوگوں کی رضامندی بھی ہو تب ہی ظاھر ہوگی ، یہی وجہ ہے امام خمینی و سید رھبر کو ایرانی عوام نے منتخب کریا ہے اور سید سیستانی کو ابھی عرآقی عوام نے اسکا حق نہیں دیا ہے۔

 

 

لہذا فقہاء کے نیابت عمومی ہے لیکن اس بات کو دعوہ کرنا کہ فلان نائب یا نمائندہ ہے جھوٹ ہے اور جس طرح سیاسی امور میں ائمہ علیھم السلام تک کی ولایت محدود تھی [ واضح رہے انکی الٰھی ولایت کسی قید سے پاک ہے لیکن حکومت کرنے کے لے وہ بھی اس بات کے پابند تھے کہ انکی حکومت کو لوگ accept کریں ] اسی طرح ایک ولی فقیہ کی ولایت سیاسی بھی اسی خطے تک محدود ہے جہاں کے لوگوں نے انکو ولی فقیہ منتخب کیا ہے۔

 

 

 

 

اور امام خمینی علیہ الرحمہ کی وہ بات حق مبنی ہے کہ ” ولایت الفقیہ ولایت معصومین کا تسسل ہے ” بلکہ یہ بات ہر فقیہ کے لے صحیح ہے کیونکہ معصوم کی طرف سے ہر فقیہ کو ولایت حاصل ہوتی ہے [ جیسا کہ اوپر ذکر بھی کیا ہے ] لیکن ایک ولی فقیہ کو انکے علاوہ ایک خاص علاقے میں حکومت کرنے کا حق بھی ملتا ہے لہذا جو لوگ امام خمینی علیہ الرحمہ کی اس بات کو یہ سمجھتے ہے کہ جس طرح معصوم کی اطاعت پوری کائنات پر واجب ہے اسی طرح ایک ولی فقیہ کی اطاعت بھی تمام انسانوں پر واجب ہے تو یہ وہ بلکل غلط ہے

 

 

آخر میں یہی بات کہنا چاھتا ہوں کہ ولایت فقیہ ایک بہترین نظریہ ہے اور میری دلی خواھش بھی ہے کہ پوری دنیا میں ایسا نظام ہو لیکن جو بات ممکن ہی نہیں ہے اسکے بارے میں سونچھنے سے کیا وہ حقیقت میں بدل سکھتا ہے ،اسی طرح کی خیالی فکر پاکستان میں سید جواد نقوی صاحب نے لائی ہے جنکے مطابق پاکستانی نظام طاغوتی نظام ہے اور اس میں ووٹ ڈالنا جائز نہیں اور وہ اس وقت کا انتظار کر رہا ہے جب پاکستان میں ولایت فقیہ نافذ ہوجائے گا [جو فلحال ممکن نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں شیعہ کہلانے والے حضرات جن میں اسماعیلی ، اثناعشری (اصولی و اخباری ) نوربخش اور غالی سب ہے انکی تعداد ۱۵ فیصد ہے ] تو ذرا کوئی عقل کے ناخون لیں اور ھمیں یہ بتا دیں کہ کیا اتنی کم آبادی ایک ملک میں ولی فقیہ مقرر کر سکھتی ہے [ اگر بلفرض شیعہ آپسی اختلاف کے باوجود بھی کسی کو ولی فقیہ مقرر کریں گے تو کیا باقی ۸۵ فیصد اھل سنت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں گے ] ۔۔۔۔عجیب ۔۔۔۔۔بلکہ اگر پاکستانی آئین پر نظر ڈالی جائے تو وہاں صاف لکھا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکھتا ہے { وہ الگ مسلہ ہے کہ اس کو عمل میں لانے کی کوتائی ہے} اسکے برعکس لبنان کی مثال لیں وہاں کے آئین میں ایسا کچھ نہیں بلکہ وہاں آئین کے مطابق شراب جائز ہے ، زنا جائز ہے وغیرھم لیکن حزب اللہ الیکشن میں حصہ لیتی ہے اور انکے نمائندے بھی پارلمنٹ میں موجود ہے اور وہ اپنا سیاسی موفق پالمنٹ میں بیان کرتے ہے جبکہ سید جواد نقوی صاحب انکو اپنا Role Model تصور کرتا ہے لیکن جب عمل کی باری آتی ہے تو پاکستانی کے آئین کو طاغوتی نظام کہتا ہے اور ووٹ کو حرام [ واضح رہیں کہ ۱۹۷۳ء میں پاکستان میں وجود آنے والے آئین میں یہ ہے کہ مقتدر اعلی صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ گویا اس آئین کے مطابق اصل حکومت اللہ تعالی کی ہے، اور اسی خداوند عالم کے نائب کے طور پر آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے تحت اس ملک میں بسنے والے اللہ کے بندے صادق و امین افراد کو بطور حکمران چنیں گے ] !

 

لہذا یہاں کے علماء کرام پر فرض ہے کشمیر کے نواجوانوں کو ولایت فقیہ کے حقیقی معنی سمجھایا جائے نہ کہ انکو جذباتی بنا کر صرف نعرہ بازی کے لے انکی پرورش کی جائے کیونکہ نعرہ بازی یا مرگ بر ۔۔۔۔مرگ بر ۔۔۔۔۔ کہنا “جوانوں کی بیداری” نہیں بلکہ ایک پاٹ [ جہالت کے طبقے ] سے دوسرے پاٹ میں داخل ہونا کہلاتا ہے

 

آخر میں ایک حدیث مبارکہ نقل کر رہا ہوں جس پر عمل کرکے میرے نزدیک اس جہالت کو دور کیا جا سکھتا ہے ؛

 

امام جعفر صادق کے تین جلیل القدر صحابی زرارہ ، محمد بن مسلم اور برید العجلی روایت کرتے ہے کہ ابوعبداللہ [ یہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی کنیت تھی ] نے حمران بن اعین سے ایک مسلئے جسکے بارے میں اس نے امام سے پوچھا تھا کہا کہ : ” لوگ تباہ اس وجہ سے ہوجاتے ہے کیونکہ وہ سوال نہیں کرتے “ { الخصال للصدوق ۱/۱۲۷ اس حدیث کو الشيخ آصف محسني نے المعجم الاحادیث المعتبرۃ میں معتبر کہا ہے // باب :عالم سے سوال اور بحث کرنا // رقم ۲/-}

 

 

والسلام علیکم

 

 

ڈاکٹر آصف حسین

۱۵-اکتوبر- ۲۰۱۷ء [ ۲۴ محرم ۱۴۳۹ھ ]

مقام : المكتبة الاثناعشرية پلوامہ – کشمیر

 

اس لنک پر ڈاونلوڈ کریں : پی ڈی ایف  

1 Comment

  1. Mohammed Ali

    Jinab Dr Asif Shab please send me your WhatsApp no my WhatsApp no, is 7006098714

    Liked by 1 person

Leave a comment