irafidhi

فضائل صحابہ میں ایک صحیح اثر کا دفاع ! 


اھل سنت کے جلیل القدر امام ابو عبداللہ احمد بن حنبل کی فضائل صحابہ میں امام حسین بن علی علیہ السلام سے ایک اثر ملتا ہے جس میں اھل بیت علیھم السلام کے مظالم پر رونے کے فضائل ورد ہوئے ہیں۔ اثر اس طرح ہے : 

حدثنا أحمد بن إسرائيل قال رأيت في كتاب أحمد بن محمد بن حنبل رحمه الله بخط يده نا اسود بن عامر أبو عبد الرحمن ثنا الربيع بن منذر عن أبيه قال كان حسين بن علي يقول من دمعتا عيناه فينا دمعة أو قطرت عيناه فينا قطرة اثواه الله تعالى الجنة .

كتاب فضائل الصحابة للإمام أحمد بتحقیق شیخ وصی اللہ عباس المدنی // جلد ۲ // صفحہ ۱۳۹ // رقم ۱۱۵۴ // طبع دار ابن الجوزی 




اس حدیث پر بعض کم فہم و جاھل قسم کے لوگ یہ اعتراض کرتے ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور بہت ساری ایسی وجوہات نقل کرتے ہے جو حق مبنی نہیں ہوتی بلکہ عوام کو دھونکہ دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ ان ہی اعتراضات میں آج کسی محترمہ نے فیسب بک پر پوسٹ کیا تھ جس میں اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۰ 

نوٹ : کتاب کے محقق شیخ وصی اللہ عباس نے صرف احمد بن اسرائیل کی جہالت کی وجہ سے اس پر کوئی حکم نہیں لگایا ہے جبکہ یہ راوی ثقہ ہے بلکہ مخالف نے اس بات کا اعتراض خود کیا ہے 


* محترمہ لکھتی ہے :



اور اس کتاب میں ابو بکر احمد بن مالک نے تین قسم کی سند سے روایت لی ہے 


1)احمد بن مالک عن عبداللہ بن احمد بن حنبل عن ابیہ یعنی احمد بن حنبل 

2) ابو بکر احمد بن مالک عن عبد اللہ بن احمد بن حنبل عن غیر ابیہ 

3) ابو بکر احمد بن مالک عن غیر عبداللہ بن احمد بن حنبل 


 اس قسم کی تقریبا 200 اسناد ہیں 




اور یہ روایت کہ جس کے متعلق کلام کیا جارہا ہے یہ بھی اسی قبیل سے ہے 


تو اس روایت کی اصل سند یہ ہوئی 👇 


ابو بکر احمد بن مالک قال حدثنا احمد بن اسرائیل قال رایت فی کتاب احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ بخط یدہ نا اسود بن عامر ثنا الربیع بن منذر عن ابیی قال کان حسین …… 




الجواب : بلکل یہی بات کتاب فضائل الصحابہ کے محقق شیخ وصی اللہ عباس المدنی نے اس کتاب کے مقدمے میں لکھی ہے اسکے بعد کچھ صفحات آگے فضائل امام حسن ، حسین ، فاطمہ ، خدیجہ علیھم السلام کے بارے میں اس کتاب کے مرکزی راوی سے ۵ مختلف اسانید بھی بیاں کی ہے۔

* محترمہ نے آگے دعوہ کیا کہ اس کی سند میں دو جگہ انقطاع موجود ہے اور پہلے انقطاع کے عنوان سے یوں لکھتی ہیں : 




احمد بن اسرائیل ثقہ راوی ہے لیکن ادھر احمد بن اسرائیل امام احمد کے خط کا ذکر کر کے روایت کررہے ہیں اور اس میں چند علتیں ہیں 


1) احمد بن اسرائیل کی پیدائش 253 ھجری ہے جب کہ امام احمد بن حنبل کی وفات 241 ھجری ہے 

یعنی احمد بن اسرائیل امام احمد کی وفات کے بھی 12 سال بعد پیدا ہوئے 


تو کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے امام احمد کے خط کو پالیا 

جواب : میں حیران ہوں کہ اس اعتراض کا کیا جواب دوں کیونکہ محترمہ خود کہ رہی ہے کہ احمد بن اسرائیل امام احمد بن حنبل کے ۱۲ سال بعد پیدا ہوگیا۔۔۔۔۔ پھر امام احمد بن حنبل کا خط/ کتاب انکے وفات کے بعد ہی مل سکھتا ہے ،انکے ولادت سے پہلے نہیں [ اگر محترمہ کا اعتراض ہے کہ خطوط [ جو دراصل کتاب ہے اسکی وضاحت آگے آئے گی ] کے لے بھی اسانید ہونی چاھے تو جو بھی آج تک خطوط اسلامی کتب میں نقل ہوئے ہے وہ سب غیر معتبر قرار پائیں گے کیونکہ انکی سند نہیں ہوتی بلکہ ایک قاصد [ مجہول ] کے ذریعہ دوسروں کو بھیجا جاتا ہے مثلاً امام احمد بن حنبل کے ہی مختلف مکتوبات طبع ہوئی ہے [ ھندوستان میں شیخ صفی الرحمان مبارکپوری کی تحقیق سے کچھ شائع ہوئے ہے ] ۔


* محترمہ آگے لکھتی ہے : 


2) اگر ان کو امام احمد کا خط مل بھی گیا تو انہوں نے کیسے پہچانا کہ یہ امام احمد کا خط ہے حالانکہ ان کی تو امام احمد سے ملاقات بھی نھی ھوئی 

جواب :اولاً –  اگر محترمہ نے ثقہ کہنے سے پہلے احمد بن اسرائیل کا احوال کتب الرجال میں پڑھا ہوتا تو ایسا بچگانہ اعتراض نہ کرتی۔ 

‎امام خطیب البغدادی فرماتے ہے : أحمد بن إسرائيل ، أحمد بن سلمان النجاد الفقيه الحنبلي، 

حوالہ : موضح الأوهام – امام خطیب البغدادی // جلد ۱ // صفحہ ۴۴۰ 
 توثیق : 

۱- امام خطیب البغدادی انکے بارے میں یوں فرماتے ہے : وکان صدوقا عارف [تاريخ بغداد ج4-ص412]

۲ – امام درقطنی نے اس پر معمولی کلام کیا ہے لیکن اس پر نقد شیخ معلمی الیمانی نے کیا وہ آخر میں یوں کہا : لم ينكر عليه حديث واحد [ التنكيل ترجمة 19] 

۳ – الحافظ ابن العديم انکے بارے میں یوں فرماتے ہے : كان فقيها مفتيا ومحدثا متقنا، واسع الرواية، مشهور الدراية [بغية الطلب في تاريخ حلب ج2-ص766]

۴ – امام ذھبی نے بھی تذکرہ الحفاظ میں اس کے بارے میں یوں لکھا ہے : الامام حافظ الفقیہ شیخ العلماء ببغداد ۔۔۔ [ تذکرہ الحفاظ -ج 3 – ص 868 ] 

۵ – شیخ الألباني نے بھی انکا حافظ صدوق کہا ہے [ إرواء الغليل ج3-ص40] 

لہذا ثابت ہوگیا یہ بڑے درجے کا ثقہ راوی ہے کیونکہ انکے لے محدثین نے بہت بڑے الفاظ استعمال کئے ہے مثلاً حافظ ، عارف ، فقیہ ، شیخ العلماء وغیرھم اور یہ جنبلیوں کا شیخ بھی تھا  
لہذا اگر انہوں نے امام احمد بن حنبل کے کسی تحریر کا ذکر کیا تو انہیں یہ خط / کتاب ملی ہوگی کیونکہ ان بزرگ سے یہ امید نہیں کی جا سکھتی کہ انہوں نے امام احمد پر جھوٹ بھاندا کیونکہ نہ تو اس پر تدلیس کی تہمت ہے اور نہ ہی یہ کذاب راوی ہے۔ [ اگے وضاحت آرہی ہے کہ یہ دراصل کوئی تحریر نہیں بلکہ باقاعدہ امام احمد کی کتاب سے تگئی ہے ]

ثانیاً – آجکل جو مخطوطات مختلف علماء کو ملتے ہے ان سے علماء کیسے طے کرتے ہے کہ فلان کاتب کی لکھائی ہے ۔۔۔۔ جس قاعدے سے وہ معتبر قرار پاتا ہے اسی قاعدے سے احمد بن اسرائیل نے بھی اسکو امام احمد کی لکھائی تصور کیا 

* محترمہ لکھتی ہے : 




3) ان کو امام احمد کا خط دیا کس نے ? وہ شخص بھی مجہول ہے 


جواب : عرض ہے کہ وجادہ میں اس خط یا کتاب کو لانے والے کا مجہول ہونا مضر نہیں بلکہ راوی خط/ کتاب کے لکھنے والے کی تحریر جانتا ہوں اور یہاں ایک بڑا حنبلی امام ، فقیہ اور شیخ العلماء لکھ رہا ہے کہ امام احمد بن حنبل کی ہاتھ کی لکھائی تھی اور یہ امام احمد کے زمانے کے بہت قریب ہے لہذا وجادہ مقبول قرار پائے گا۔
 
* محترمہ لکھتی ہے : 


4) یہ کیسے ممکن ہے کہ عبداللہ بن احمد بن حنبل یعنی امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے کے جن سے امام احمد کی اکثر روایات مروی ہیں ان کو تو اس حدیث کا علم نا ہوا لیکن ایک دوسرے راوی کو کہ جو امام احمد کی وفات کے بھی بعد پیدا ہوا اسکو یہ حدیث لکھی ہوئی مل گئی فیاللعجب 




جواب : تو کیا اس منطق کے مطابق جو بھی انکے صاحبزادے کے علاوہ ان سے نقل ہوا ہے وہ معتبر نہیں ۔۔۔ عجیب منطق ہے۔ عجیب 
کیا بعد میں ملنے والا ہر مخطوط غیر معتبر ہوگا اگر ایسا ہے تو کوئی کتاب اپکے یہاں معتبر قرار نہیں پائے گی۔

* محترمہ یوں لکھتی ہے : 

وجادۃ کے متعلق راجح قول یہ ہے کہ ایسے راوی کی روایت قبول کی جائیگی مگر تین شرائط کے ساتھ 


(1) کہ وجادۃ کرنے والا ثقہ ہو اور تدلیس کرنے والا نا ہو 


(2) کہ وہ ان میں سے ہو کہ جو اپنے شیخ کے خط کو پہچانتے ہوں اور اس کا واسطہ (شیخ کے خط تک پہنچنے کا) بھی ثقہ ہو اور معلوم ہو کہ انہوں نے کس سے لیا 


(3) باقی سند بھی صحیح ہو




تو پہلی شرط تو پوری ہورہی ہے کہ ثقہ بھی ہے اور تدلیس سے پاک بھی 


لیکن دوسری اور تیسری شرط معدوم ہے 




جواب : یہاں وجادہ مقبول ہے کیونکہ جو دوسری شرط انہوں نے نقل کی ہے کہ شیخ کے خط کو پہچانتا ہو اور اس تک سلسلہ سند بھی موجود ہو بلکہ یہاں ان محترمہ نے تدلیس سے کام لیا ہے کیونکہ یہاں صرف وجدت نہیں بلکہ یہ بھی لکھا ئے کہ امام احمد بن حنبل کی کتاب میں ایسا لکھا ہے اور سب اھل علم جانتے ہے کہ کتاب سے روایت نقل کرنا معتبر ہے اور اسکے کسی سند کی ضرورت نہیں ہوتی چناچہ شیخ کفایت اللہ سنابلی اپنی کتاب میں اسکے بارے میں یوں فرماتے ہے : 

واضح رہے کہ امام مدائنی صاحب تصنیفات ہیں.خود امام ذھبی نے بھی ان کی تصنیفات کے بارے میں کہا ہے : 

‎امام مدائنی مہشور کتابوں کے مصنف ہیں ( تاریخ الاسلام ت بشار ٥ /٦٣٨ ) 

‎اسکے بعد امام ذھبی نے انکی کئی تصانیف کا ذکر بھی کیا ہے اور صاحب تصانیف محدث کے حوالے سے مع سند کوئی بات نقل کی جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ناقل نے اسے صاحب تصنیف کی کسی کتاب سے نقل کردہ روایت معتبر ہوتی ہے…. 

‎حوالہ : یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ ٣٤٢ / طبع ممبئ


لہذا یہ اعتراض کرنا کہ کتاب تک سند کہاں ہے بے بنیاد ہے جبکہ امام احمد بن حنبل بھی صاحب تصانیف ہے۔ 

* محترمہ آگے ایک اور دعوہ کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ : 

2…. سند کے آخر میں بھی انقطاع ہے 


وہ اس طرح کے منذر کا سماع کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں 


جواب :  

پہلی بات تو یہ کہ منذر کا سماع ربیع بن حثیم ( جو 63ھ میں فوت ہوگئے ) سے ثابت ہے [ صحیح بخاری – کتاب الرقاق ] 

– امام حسین علیہ السلام کی شھادت 61ھ میں کربلا میں ہوئی 

– لہذا امام حسین و ربیع بن حثیم کی وفات قریب ہے اور ایسا گمان کہ منذر امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد پیدا ہوکر ربیع سے سماع کیا [ کیونکہ کل کسی حنفی نے یہ جواب دیا تھا ] یہ ایک بچگانہ فعل ہے کیونکہ 2 سال کے بچہ کا دودھ پیتے پیتے سماع ممکن نہیں ، لہذا یہاں دلائل اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہے کہ منذر نے امام حسین کا معاصرہ پایا اور معاصر کافی ہوتا ہے سماعت کے لے الا کوئی محدث خاص سماع کا انکار کریں جیسا کہ شیخ البانی نے بھی کہا ہے :

‎يكفينا في هذه الحالة ثبوت المعاصرة وإمكان اللقاء ” كما هو المختار عند جماهير العلماء بشرط السلامة من التدليس ] السلسلة الصحيحة ج7-ص1155]

* محترمہ پھر لکھتی ہے : 
اور جناب حسین کے شاگردوں میں منذر کا نام نہیں 

اسی طرح منذر کے شیوخ میں بھی جناب حسین کا نام نہیں 

جواب : معاصرہ کافی ہوتا ہے جیسا کہ ھم نے اوپر ثابت بھی کردیا ، اگر یہ اصول کہ کتب الرجال میں شیوخ و شاگرد کا ہونا ضروری ہو تو بہت سارے صحیج احادیث سے ہاتھ دھونا پڑھ جائے گا۔ 
اور ایک بات شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اپنے ایک رسالہ اسی بحث کے زیل میں نکتہ بیان کیا ہے وہ اس طرح لکھتے ہے : 

اب ان کا تعین ہوجانے کے بعد ھم آگے بڑھتے ہیں اور ان کے استاذ ” مسلم بن ابراھیم ” کا تعین کرتے ہیں ، اس کے لے کتب رجال میں ھم ” محمد بن عیسی بن حیان ” کے استتذہ کی فہرست دیکھےی ہیں لیکن اس فہرست میں مسلم بن ابراھیم کا نام کہیں نہیں آتا لیکن اس کے ساتھ ان کے اساتذہ کی فہرست درج کرنے والے ائمہ کی طرف سے یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ ” وجماعة ” – اور ایک جماعت سے انہوں نے روایت کی ہے [ سیر اعلام النبلا للذھبی ۱۳/۲۱ 
یعنی منذرجہ فہرست کے علاوہ بھی ایک جماعت ان کے اساتذہ میں شامل ہے جن کا ذکر اختصار کے پیش نظر جھوڈ دیا گیا ہے ۔ اب یہ بھی ہوسکھتا ہے کہ ” مسلم بن ابراھیم ” کی اساتذہ کی اس جماعت میں شامل ہوں جن کا ذکر اختصار کےُسبب ائمہ نے چھوڈ دیا ۔

حوالہ : ایام قربانی اور آثار صحابہ – شیخ کفایت اللہ سنابلی // صفحہ ۱۷ 





اور منذر بن يعلي الثوري کا حال نقل کرتے ہوئے ابن حجر العسقلانی نے تہذیب التہذیب میں یوں لکھا : 

531- “ع – المنذر” بن يعلى الثوري1 أبو يعلى الكوفي روى عن محمد بن علي بن أبي طالب والربيع بن خيثم وسعيد بن جبير وعاصم بن ضمرة والحسن بن محمد بن علي بن أبي طالب وغيرهم 

حوالہ : تہذیب التہذیب لابن حجر // جزء ۱۰ // صفحہ ۳۰۴ // طبع مکتبہ الشاملہ 




یہاں بھی ابن حجر نے آخر میں لفظ ” وغیرھم ” استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے اس کے شیوخ اور بھی ہے اور غالب احتمال ہے ان میں امام حسین علیہ السلام بھی ہونگے جیسا کہ شیخ سنابکی صاحب نے استدلال کیا۔ 

* آخر میں اس محترمہ نے اسکے متن پر کلام کرنا چاھا لیکن اگر دیکھا جائے تو جو علوم الحدیث کا طلاب علم ہوتا ہے اسکا کام صرف سند پر حکم لگانا ہوتا ہے متن کا کام فقیہ کا ہوتا ہے [ الحمدللہ میں آپکے دلائل کا پورا رد کر سکھتا ہوں لیکن آپکو آئینہ دکھانے کے لے محدثین کے اقوال نقل کر رہا ہوں تاکہ آپ خود ہی محث ، فقیہ ، متکلم و مفسر بنے سے اجتناب کریں ]
ابن القطان  اس کے بارے میں یوں لکھتے ہے : 

ووظيفة المحدث النظر في الأسانيد ، من حيث الرواة والاتصال والانقطاع ، فأما معارضة هذا المتن ذلك الآخر ، وأشباه هذا ، فليس من نظره ، بل هو من نظر الفقيه .

محدث کا کام اسانید دیکھنا ہوتا ہے رواہ ، اتصال اور منقطع ہونے کے تناظر میں اور جہاں تک متن کے اختلاف کا تعلق ہے تو یہ اسک کام نہیں بلکہ یہ کام فقیہ کا ہوتا ہے 

حوالہ : بيان الوهم والإيهام لابن القطان // صفحہ ۳۱۷ 



ابن حجر العسقلانی نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے : 

فإن قيل : إنما حكم عليه بالوضع ، نظرا إلى لفظ المتن ، وكون ظاهره مخالفا للقواعد . قلنا : ليست هذه وظيفة المحدث . 

ابن حجر ایک جگہ امام ابن الجوزی کا رد کرتا ہے کیونکہ انہوں نے المسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث کو موضوع قرار دیا جسکا متن انکے مطابق قوائد الشریعہ کے خلاف تھا ۔

ابن حجر نے کہا : میں کہتا ہوں یہ محدث کا کام نہیں ہے 

حوالہ : النكت // جزء ۱ // صفحہ ۴۵۴ / مکتبہ الشاملہ 


  •  نوٹ : ابھی کچھ حضرات نے یہان کمنٹ کیا کہ اس میں ربیع بن منذر اور انکے والد مجہول ہے تو عرض ہے کہ فضائل صحابہ کے اھل الحدیث محقق شیخ وصی اللہ عباس المدانی نے صاف احمد بن اسرائیل کے علاوہ سب کو ثقہ کہا ہے اور بطور مثال ربیع بن منذر الثوری کا ذکر کیا ہے جسکو ابن معین نے ثقہ کہا ہے اور انکے والد بھی ثقہ جیسا کہ ابن حجر عسقلانی نے تقریب التہذیب میں اسکو ثقہ قرار دیا ہے 


حوالہ : تقریب التہذیب لابن حجر // صفحہ ۵۷۶// رقم ۶۸۹۳ // طبع دار المنھاج 




لہذا اسکی سند میں کوئی غبار نہیں بلکہ یہ صحیح ہے 

تحریر : ڈاکٹر آصف حسین ۱۲ اکتوبر ۲۰۱۷ء 

9 Comments

  1. Adeel Khan

    اندھی تقلید کا نتیجہ

    Like

    • بھائی اسکو الزامی جواب کہتے ہے ۔۔۔ سنابلی صاحب آپکے عالم ہے اور میں رہا شیعہ رافضی 😁

      Like

  2. سند میں الرَّبِيعُ بْنُ مُنْذِرٍ، عَنْ أَبِيهِ ہے دونوں مجہول ہیں

    الربيع بن المنذر الثوري، من أهل الكوفة کو عجلی نے ثقہ کہا ہے اور مجہول کو ثقہ کہتے ہیں- اس کے باپ کا تو سرے سے اتا پتا نہیں کون ہے

    Like

    • شاید آپ نے اوپر پورا پوسٹ نہیں پڑھا ۔۔۔ ربیع بن منذر کو شیخ وصی اللہ عباس نے ثقہ قرار دیا ہے کیونکہ ابن معین نے بھی اسکو ثقہ قرار دیا ہے ۔۔۔۔ پہلے پورا مقالہ پڑھیں پھر جواب دینے کی کوشش کریں

      Like

      • یہ کس نے خبر دی کہ الربيع بن المنذر کے باپ کا نام المنذر ابن يعلى ہے ؟

        Like

      • ان میں یہ کہاں ہے کہ یہ دونوں باپ بیٹے ہیں ؟

        ———
        اپ نے جو معلومات ہیں ان کے مطابق اپ نے جو روایت دی

        حدثنا أحمد بن إسرائيل قال رأيت في كتاب أحمد بن محمد بن حنبل رحمه الله بخط يده نا اسود بن عامر أبو عبد الرحمن ثنا الربيع بن منذر عن أبيه قال كان حسين بن علي يقول من دمعتا عيناه فينا دمعة أو قطرت عيناه فينا قطرة اثواه الله تعالى الجنة
        كتاب فضائل الصحابة للإمام أحمد

        اس کی سند منقطع ہے کیونکہ اس کے مطابق المنذر بن يعلى الثوري أَبُو يعلى الكوفي نے ابن حنفیہ کے پوتوں سے روایت لی ہے تو ظاہر ہے حسین رضی الله عنہ سے اس کا سماع نہیں ہو سکتا

        Like

      • بھائی مہربانی کرکے اپنی کتب پڑھ لیا کریں :

        شیخ وصی اللہ عباس نے خود اوپر کہا ہے کہ یہاں ربیع ست مراد ربیع بن المنذر الثوری ہے جو ثقہ ہے ۔۔۔ اور تقریب التہذیب میں انکے والد المنذر الثوری ثقہ ہے ۔۔۔ لہذا آپکے جاھلانہ اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں

        اب آپ نے کہا کہ منذر الثوری کا سماع ابن حنفیہ کے بیٹے سے ہے تو عرض ہے ابن حجر کی تہذیب ہی پڑھ لیتے وہاں اسکا سماع محمد بن حنفیہ اور ربیع بن حثیم سے بھی ثابت ہے ۔۔۔

        عقل نہ ہو تو موجائے موجائے 😂

        Like

  3. میرے بھائی آپ بھی اپنی کتب پڑھ لیں

    اہل تشیع کی کتاب مشايخ الثقات- غلام رضا عرفانيان میں ہے
    الربيع بن منذر 32 / 4، لم يذكر
    اس کا ذکر نہیں کیا
    ——
    یعنی اس پر نہ جرح ہے نہ تعدیل ہے مجہول ہوا
    =========================
    دوسری بحث اس پر ہے کہ منذر بن یعلی کا سماع حسین رضی الله عنہ سے ہے یا نہیں
    امکان لقاء کی بنیاد پر اہل تشیع کی طرفسے اس کو بیان کیا جارہا ہے جبکہ اس کا سماع حسین سے ثابت نہیں
    دوم ابن حجر نے تہذیب میں یہ لکھا ہے کہ منذر ، محمد بن حنفیہ اور ربیع بن حثیم سے روایت کرتا ہے سماع کا نہیں لکھا
    روایت کرنے میں اور سماع کہنے میں فرق ہے

    المنذر” بن يعلى الثوري1 أبو يعلى الكوفي روى عن محمد بن علي بن أبي طالب والربيع بن خيثم وسعيد بن جبير وعاصم بن ضمرة والحسن بن محمد بن علي بن أبي طالب

    منذر کی روایت ابن حنفیہ اور ان کے پوتوں سے ہوئی حسین سے ثابت نہیں کیونکہ صرف یہ ایک روایت ہے جس میں منذر نے حسین سے روایت کیا ہے سماع کی تصریح نہیں ہے

    Like

    • ایسا لگتا ہے کہ مخالف بھائی بھنگ پی کے بحث میں آیا ہے :

      ۱ – بھائی یہاں حدیث اھل سنت کتب سے ہے اور اھل سنت علم جرح و تعدیل سے اس روایت کو صحیح یا ضعئف ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ، اھل تشیع کا علم الرجال تو بہت الگ ہے وہ انکی کتب احادیث پر لاگو ہوتا ہے

      آپ نے غلام رضا عرفانیان کی حوالہ دیا تو آپکو یہ بھی معلوم ہونا چاھے کہ شیعہ علم الرجال میں متاخرین کے رائے کی کوئی حیثیت نہیں اور غلام رضا عرفیانیان متاخر کے عالم دین ہے

      ۲ – آپ نے دوسری بات کی ہے علامہ البانی نے صاف طور پر کہا ہے کہ امکان لقاء کافی ہوتا ہے سماع کے لے

      ۳ – شاید آپ نے صحیح بخاری نہیں پڑھی ہے اس میں کتاب رقاق میں منذر کا سماع ربیع بن یعلی سے ثابت ہے اسکو دلیل بنا کر ھم سے استدلال کیا تھا ۔

      لہذا اچھے سے جواب تیار کریں ہوائی باتوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں

      Like

Leave a comment